آیات 94 - 95
 

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡ قَرۡیَۃٍ مِّنۡ نَّبِیٍّ اِلَّاۤ اَخَذۡنَاۤ اَہۡلَہَا بِالۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّہُمۡ یَضَّرَّعُوۡنَ﴿۹۴﴾

۹۴۔ اور ہم نے جس بستی میں بھی نبی بھیجا وہاں کے رہنے والوں کو تنگی اور سختی میں مبتلا کیا کہ شاید وہ تضرع کریں ۔

ثُمَّ بَدَّلۡنَا مَکَانَ السَّیِّئَۃِ الۡحَسَنَۃَ حَتّٰی عَفَوۡا وَّ قَالُوۡا قَدۡ مَسَّ اٰبَآءَنَا الضَّرَّآءُ وَ السَّرَّآءُ فَاَخَذۡنٰہُمۡ بَغۡتَۃً وَّ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ﴿۹۵﴾

۹۵۔پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی میں بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوشحال ہو گئے اور کہنے لگے: ہمارے باپ دادا پر بھی برے اور اچھے دن آتے رہے ہیں، پھر ہم نے اچانک انہیں گرفت میں لے لیا اور انہیں خبر تک نہ ہوئی۔

تفسیر آیات

بعض اقوام و امم کے حالات اور ان کے انجام کے ذکر کے بعد اللہ اپنی اس لایتغیر سنت اور ثابت نظام کو بیان فرماتا ہے جس سے اس نے ہر قوم کو گزارا:

۱۔ اَخَذۡنَاۤ اَہۡلَہَا بِالۡبَاۡسَآءِ: پہلے اس قوم کو مصائب و آفات میں ڈالا اور طرح طرح کی تکلیفوں میں مبتلا کیا تاکہ اپنی طاقت و قوت اور مال و دولت، قوم و قبیلہ کے بھروسے پر نخوت کا طلسم اور غرور و تکبر کا نشہ بھی ٹوٹ جائے:

وَ اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ فَذُوۡ دُعَآءٍ عَرِیۡضٍ (۴۱ حم سجدہ : ۵۱ )

اور جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو وہ لمبی دعائیں کرنے لگتا ہے۔

ایسے حالات میں انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوتے ہیں اور دعوت الی اللہ کے لیے فضا سازگار اور زمین ہموار مل جاتی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انعام : ۴۲۔

ماہرین نفسیات کا بھی یہی نظریہ ہے کہ مصائب و آفات انسان کی تربیت و اصلاح کے لیے نہایت ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ چنانچہ عالمی جنگوں کے دوران یہ بات سب کے مشاہدے میں آئی ہے کہ عبادت گاہیں ہر وقت سے زیادہ آباد رہتی تھیں اور یہ بات بھی تجربے میں آئی ہے کہ شدائد و مصائب سے صلاحیتیں نکھرتی ہیں۔ اسی سے ہے کہ اکثر نابغۂ روزگار غریب اور نادار خاندانوں سے ابھرتے ہیں۔

۲۔ ثُمَّ بَدَّلۡنَا: اس سازگار فضا میں بھی ان کا تکبر و نخوت فرو نہیں ہوتا اور ان کی اکڑی ہوئی گردن ڈھیلی نہیں ہوتی تو ان کو آسودگی اور دولت کی فراوانی میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ اس وقت وہ اپنے برے دن بھول جاتے ہیں اور اس کو اللہ کی طرف سے آزمائش و امتحان کے طور پر قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے بلکہ اس کو نیچر کا کھیل تصور کرتے ہیں اورکہتے ہیں: قَدۡ مَسَّ اٰبَآءَنَا کہ ہمارے آبا و اجداد بھی اسی نشیب و فراز سے دوچار رہے ہیں۔ وہ نیچر کے اس انوکھے کھیل کے کھلونے رہ چکے ہیں۔ اس کے پیچھے کسی قصد و ارادے اور کسی شعور و مصلحت کا کوئی دخل نہیں ہے۔ جیسے ہمارے برے دن بے مقصد آئے تھے، ایسے ہی یہ اچھے دن بھی اتفاقیہ ہیں یا شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کے نشیب و فراز اور بدحالی و خوشحالی، صرف انسان کی محنت اور مادی علل و اسباب کے تابع ہیں۔ اسی لغو، طغیانی اور غفلت و نادا نی کے عین عالم میں ان کو اچانک گرفت میں لے لیا گیا اوروہ نابود ہو گئے:

وَ اِذَاۤ اَنۡعَمۡنَا عَلَی الۡاِنۡسَانِ اَعۡرَضَ وَ نَاٰ بِجَانِبِہٖ ۚ وَ اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ کَانَ یَــُٔوۡسًا (۱۷ اسراء : ۸۳)

اور جب ہم انسان کو نعمتوں سے نوازتے ہیں تو وہ روگردانی کرتا ہے اور اپنی کروٹ پھیر لیتا ہے اور جب اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ مایوس ہو جاتا ہے۔

سورہ اعراف کے نزول کے وقت قریش کا بھی عیناً یہی طرز عمل تھا۔

اہم نکات

۱۔ تنگی و سختی سے امتحان میں کامیابی مل سکتی ہے، مگر خوشحالی اور نعمتوں کے امتحان میں کامیاب ہونا نہایت مشکل ہے: حَتّٰی عَفَوۡا وَّ قَالُوۡا ۔۔۔۔

۲۔ اللہ، خوش بختی اور خوشحالی کے علل و اسباب کے متبادل اور مقابل میں نہیں بلکہ اللہ ان تمام علل و اسباب سے پہلے اور ان سب کے اوپر علت و سبب ہے۔ باقی تمام اسباب و علل اللہ کے ذیل میں آتے ہیں۔ وہی تمام اسباب و علل کا خالق ہے۔ (غور کیجیے)


آیات 94 - 95