اقوام عالم اور سنن الٰہیہ


ثُمَّ بَدَّلۡنَا مَکَانَ السَّیِّئَۃِ الۡحَسَنَۃَ حَتّٰی عَفَوۡا وَّ قَالُوۡا قَدۡ مَسَّ اٰبَآءَنَا الضَّرَّآءُ وَ السَّرَّآءُ فَاَخَذۡنٰہُمۡ بَغۡتَۃً وَّ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ﴿۹۵﴾

۹۵۔پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی میں بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوشحال ہو گئے اور کہنے لگے: ہمارے باپ دادا پر بھی برے اور اچھے دن آتے رہے ہیں، پھر ہم نے اچانک انہیں گرفت میں لے لیا اور انہیں خبر تک نہ ہوئی۔

94۔95۔ بعض اقوام و امم کے حالات اور ان کے انجام کے ذکر کے بعد اللہ اپنی اس لایتغیر سنت اور ثابت نظام کو بیان فرماتا ہے جس سے اس نے ہر قوم کو گزارا۔

پہلے اس قوم کو مصائب و آفات میں ڈالا اور طرح طرح کی تکلیفوں میں مبتلا کیا تاکہ لوگوں کے غرور و تکبر کا نشہ ٹوٹ جائے اور اپنی طاقت و قوت اور مال و دولت قوم و قبیلہ کے بھروسے پر اس کی نخوت کا طلسم بھی ٹوٹ جائے۔ وَ اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ فَذُوۡ دُعَآءٍ عَرِیۡضٍ ۔ (حم سجدہ: 51) جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو لمبی لمبی دعائیں کرنے لگتا ہے۔ ایسے حالات میں انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوتے ہیں اور دعوت الی اللہ کے لیے فضا سازگار اور زمین ہموار مل جاتی ہے۔

چنانچہ ماہرین نفسیات کا بھی یہی نظریہ ہے کہ مصائب و آفات انسان کی تربیت و اصلاح کے لیے نہایت ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ چنانچہ عالمی جنگوں کے دوران یہ بات سب کے مشاہدے میں آئی ہے کہ عبادت گاہیں ہر وقت سے زیادہ آباد رہتیں تھیں اور یہ بات بھی تجربے میں آئی ہے کہ شدائد و مصائب سے صلاحیتیں نکھرتی ہیں۔ اسی سے ہے کہ اکثر نابغۂ روزگار غریب اور نادار خاندانوں سے ابھرتے ہیں۔

اس سازگار فضا میں بھی ان کا تکبر و نخوت فرو نہیں ہوتا تو ان کو آسودگی اور دولت کی فراوانی میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔اس وقت وہ اپنے برے دن بھول جاتے ہیں اور اسے اللہ کی طرف سے آزمائش و امتحان کے طور پر قبول کرنے کو بھی تیار نہیں ہوتے، بلکہ اسے طبیعت کا کھیل تصور کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے آبا و اجداد بھی اس نشیب و فراز سے دو چار رہے ہیں۔ اس کے پیچھے کسی قصد و ارادہ اور کسی شعور و مصلحت کا کوئی دخل نہیں ہے۔جیسے ہمارے برے دن بے مقصد آئے تھے ایسے یہ اچھے دن بھی اتفاقیہ ہیں۔ اسی لغو اور طغیانی اور غفلت و نادانی کے عین عالم میں ان کو اچانک گرفت میں لے لیا گیا اور نابود ہو گئے۔