اَوَ لَمۡ یَہۡدِ لِلَّذِیۡنَ یَرِثُوۡنَ الۡاَرۡضَ مِنۡۢ بَعۡدِ اَہۡلِہَاۤ اَنۡ لَّوۡ نَشَآءُ اَصَبۡنٰہُمۡ بِذُنُوۡبِہِمۡ ۚ وَ نَطۡبَعُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ فَہُمۡ لَا یَسۡمَعُوۡنَ﴿۱۰۰﴾

۱۰۰۔ جو لوگ اہل زمین (کی ہلاکت) کے بعد زمین کے وارث ہوئے ہیں،کیا ان پر یہ بات عیاں نہیں ہوئی کہ ہم چاہیں تو ان کے جرائم پر انہیں گرفت میں لے سکتے ہیں؟ اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں پھر وہ کچھ نہیں سنتے ۔

100۔ ہر آنے والی قوم کے لیے اپنے پیشرؤں کا انجام بد سبق آموز ہوتا ہے۔ ان کے عروج و زوال میں عبرتیں ہوتی ہیں کہ ان کو کس قسم کی غلطیوں نے تباہ کر دیا۔ اللہ کی سنت میں تبدیلی نہیں آتی، انہی حالات سے ہر سرکش قوم دو چار ہو گی۔ اس فقرے

سے اللہ یہ نہیں چاہتا کہ لوگ مضطرب الحال رہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ لوگ بیدار رہیں، کیونکہ غفلت میں تباہی اور ہوشیاری میں نجات ہے۔