آیت 96
 

وَ لَوۡ اَنَّ اَہۡلَ الۡقُرٰۤی اٰمَنُوۡا وَ اتَّقَوۡا لَفَتَحۡنَا عَلَیۡہِمۡ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لٰکِنۡ کَذَّبُوۡا فَاَخَذۡنٰہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ﴿۹۶﴾

۹۶۔اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کے سبب جو وہ کیا کرتے تھے انہیں گرفت میں لے لیا۔

تفسیر آیات

وَ لَوۡ اَنَّ اَہۡلَ الۡقُرٰۤی اٰمَنُوۡا: ایمان باللہ انسانی زندگی سے الگ کسی اور چیز کا نام نہیں ہے بلکہ ایمان اس زندگی کا مسئلہ ہے۔ ایمان لانے کا مطلب یہ ہو گا کہ ایمان لانے والا فطری تقاضوں کے خطوط پر اپنی زندگی استوار کرتا ہے۔ اس کے احساسات اور جذبات زندہ ہیں۔ وہ انسانی قدروں کی پاسداری کرتاہے۔ اگر پورا معاشرہ مومن ہے تو یہ الٰہی و انسانی قدروں کا مالک معاشرہ ظلم و استحصال سے پاک ہو گا۔ کوئی انسان کسی انسان کا غلام ہو گا نہ کسی کی طرف سے کسی فرد کا اقتصادی، سیاسی، عسکری و اخلاقی استحصال ہو گا۔ ہر ایک کو قدرتی مصادر سے بھرپور استفادہ کرنے کے حق اور موقع ملے گا۔

لہٰذا ایمان باللہ، غیر اللہ کی بندگی سے آزادی کا نام ہے۔ روشن ضمیری اور احساس مسؤلیت کا نام ہے۔ معاشرے میں برادری و برابری کا نام ہے۔ انسانی خواہشات پر قدغن نہیں بلکہ ان خواہشات کا محکوم ہوئے بغیر ان کو جائز اور عادلانہ طریقہ سے پورا کرنے کے حق اور ان کے احترام کا نام ہے۔

ایمان باللہ دنیاوی زندگی سے کٹ جانے کا نام نہیں بلکہ اس زندگی کو سنوارنے کانام ہے:

وَ لَا تَنۡسَ نَصِیۡبَکَ مِنَ الدُّنۡیَا ۔۔۔۔ (۲۸ قصص : ۷۷)

دنیا سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر ۔۔۔۔

ایمان باللہ سے منابع طبیعت و مصادر قدرت سے بہتر استفادہ ہو سکتا ہے۔

آپ کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اگر ایمان باللہ لوگوں کی دنیاوی زندگی میں خوشحالی لاتا ہے تو بہت سی مسلم قومیں فقیر اور کافر قومیں ترقی یافتہ کیوں ہیں؟ جواب یہ ہے کہ قوموں نے جب تک اللہ پر ایمان و بھروسہ رکھا، وہ دنیا میں باعزت و بالادست رہیں لیکن آج یہ مسلم قومیں ایمان بالطاغوت رکھتی ہیں۔ وہ اپنے طاغوتی حکمرانوں کی غلام ہیں جو آگے جا کر عالمی طاغوت اور استحصالی قوتوں پر اعتماد کرتی ہیں۔

ثانیاً اس کا تعلق قدرتی عوامل سے ہے، صرف نظریات سے نہیں۔ نظریات قدرتی عوامل کو بروئے کار لانے میں مؤثر نہیں ہیں۔ مثلاً پودے کو پانی اور کھاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ نمازی، تہجد گزار یہ چیزیں فراہم نہ کرے تو تسبیح سے یہ ضرورت پوری نہیں ہوتی۔ مسلم قوموں نے قدرتی وسائل کے بارے میں غداروں اور اغیار کا تسلط قبول کیا ہے، جو اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے، تو پسماندگی قدرتی بات ہے۔ چونکہ یہاں قانون قدرت ہر ایک کے لیے یکساں نافذ ہوتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ مؤمن ثواب دارین حاصل کر لیتا ہے جیساکہ بعض خسر الدنیا والآخرۃ کا شکار ہو جاتا ہیں۔


آیت 96