آیت 93
 

فَتَوَلّٰی عَنۡہُمۡ وَ قَالَ یٰقَوۡمِ لَقَدۡ اَبۡلَغۡتُکُمۡ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَ نَصَحۡتُ لَکُمۡ ۚ فَکَیۡفَ اٰسٰی عَلٰی قَوۡمٍ کٰفِرِیۡنَ﴿٪۹۳﴾

۹۳۔ شعیب ان سے نکل آئے اور کہنے لگے: اے میری قوم!میں نے اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچائے اور تمہیں نصیحت کی، تو (آج) میں کافروں پر رنج و غم کیوں کروں؟

تفسیر آیات

۱۔ فَتَوَلّٰی عَنۡہُمۡ: تبلیغ و نصیحت کے بے اثر ہونے کے بعد وقت کا رسول جب قوم سے منہ موڑ لیتا ہے، وہ قوم ابدی ہلاکت میں چلی جاتی ہے۔

۲۔ فَکَیۡفَ اٰسٰی: اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر شے پر محیط ہے اور وہ ارحم الراحمین ہے۔ اپنے اندر اہلیت پیدا کر کے ہی اس عظیم و وسیع رحمت کو شامل حال کیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ قوم رحم کے اہل ہوتی تو ان پر عذاب نازل ہی نہ ہوتا اور ان کا رسول بھی عذاب سے رنج و غم نہ کرتا۔

واضح رہے کہ حضرت شعیب (ع) نے اپنی قوم سے یہ خطاب ان کی ہلاکت کے بعد کیا ہے۔

اہم نکات

۱۔ مردے زندوں کا خطاب سنتے ہیں: یٰقَوۡمِ لَقَدۡ اَبۡلَغۡتُکُمۡ ۔۔۔۔

۲۔ اپنے اندر اہلیت پیدا کر کے ہی اس عظیم و وسیع رحمت کو شامل حال کیا جا سکتا ہے، ورنہ سرکش قوم رحم کی مستحق نہیں ہوتی: فَکَیۡفَ اٰسٰی عَلٰی قَوۡمٍ ۔۔۔۔


آیت 93