بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

اِذَا السَّمَآءُ انۡشَقَّتۡ ۙ﴿۱﴾

۱۔جب آسمان پھٹ جائے گا،

1۔ اس آیت کی تفسیر میں باب مدینۃ العلم حضرت مولائے متقیان علی علیہ السلام کا ایک علمی معجزہ نہایت قابل توجہ ہے، جس میں آپ نے دنیائے فلکیات میں پہلی مرتبہ یہ انکشاف کیا جن ستاروں کو ہم آسمان میں دیکھ رہے ہیں، وہ ایک کہکشاں ہے۔ قیامت کے دن یہ ستارے کہکشاں سے جدا ہو جائیں گے اور آسمان پھٹ جائے گا۔ فرمایا: انھا تنشق من المجرۃ ۔ (بحار الانوار 55:82) یہ آسمان کہکشاں سے پھٹ جائے گا۔ حضرت علی علیہ السلام سے پہلے کس کو گمان تھا کہ آسمان کہکشاں کا حصہ ہے۔ سورہ انفطار میں اس کی مزید وضاحت ہے، جس میں فرمایا: وَ اِذَا الۡکَوَاکِبُ انۡتَثَرَتۡ جب ستارے بکھر جائیں گے۔

وَ اَذِنَتۡ لِرَبِّہَا وَ حُقَّتۡ ۙ﴿۲﴾

۲۔ اور اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گا جو اس کا حقدار ہے۔

وَ اِذَا الۡاَرۡضُ مُدَّتۡ ۙ﴿۳﴾

۳۔ اور جب زمین پھیلا دی جائے گی۔

وَ اَلۡقَتۡ مَا فِیۡہَا وَ تَخَلَّتۡ ۙ﴿۴﴾

۴۔ اور جو کچھ اس کے اندر ہے اسے اگل دے گی اور خالی ہو جائے گی۔

4۔ یعنی زمین اپنے شکم کے اندر موجود تمام اموات کو نکال کر باہر کر دے گی۔

وَ اَذِنَتۡ لِرَبِّہَا وَ حُقَّتۡ ؕ﴿۵﴾

۵۔ اور اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گی جو اس کے لیے سزاوار ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدۡحًا فَمُلٰقِیۡہِ ۚ﴿۶﴾

۶۔ اے انسان! تو مشقت اٹھا کر اپنے رب کی طرف جانے والا ہے، پھر اس سے ملنے والا ہے۔

6۔ اے انسان! تجھے اس کرہ ارض کی پشت پر عیش و آرام اور پر تعیش زندگی گزارنے کے لیے نہیں بھیجا گیا تھا، نہ ہی لہو و عبث اور کھیل کود کے لیے بھیجا گیا تھا، بلکہ تجھے خلیفۃ اللہ کے منصب پر فائز کر کے بھیجا اور اس فیصلے کے ساتھ کہ تجھے خواہ اپنی زندگی کا سامان فراہم کرنا ہو یا اپنے ارتقائی سفر کا، یعنی اپنی انتہائی منزل (رضائے رب) تک پہنچنا ہو، ہر بات کے لیے تجھے خود محنت و مشقت کرنا ہے۔ اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ از خود مفت میں بلا استحقاق کسی کو کوئی مقام نہیں دے گا۔

فَاَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیۡنِہٖ ۙ﴿۷﴾

۷۔ پس جس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا،

فَسَوۡفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیۡرًا ۙ﴿۸﴾

۸۔ اس سے عنقریب ہلکا حساب لیا جائے گا۔

وَّ یَنۡقَلِبُ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ مَسۡرُوۡرًا ؕ﴿۹﴾

۹۔ اور وہ اپنے گھر والوں کی طرف خوشی سے پلٹے گا۔

9۔ حساب سے فارغ ہونے اور نجات کا پروانہ ملنے کے بعد اپنے اہل و اولاد سے خوشی کے ساتھ جا ملیں گے۔ ممکن ہے کہ اپنے عزیزوں سے وہ لوگ بھاگیں جن کا حساب نہ ہوا ہو اور ممکن ہے کہ عزیزوں سے بھاگنا صرف بدکاروں سے مخصوص ہو، ورنہ مؤمنین اور علماء اور شہداء تو دوسروں کی شفاعت کریں گے۔

وَ اَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ وَرَآءَ ظَہۡرِہٖ ﴿ۙ۱۰﴾

۱۰۔ اور جس کا نامہ اعمال اس کی پشت کے پیچھے سے دیا جائے گا،

10۔ بعض آیات میں ہے کہ مجرمین کا نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ تھما دیا جائے گا، جبکہ اس آیت میں فرمایا کہ ان کا نامہ اعمال ان کے پیچھے سے دیا جائے گا۔ اس کی ایک توجیہ سورہ نساء آیت 47 سے ملتی ہے کہ ان کے چہرے پیچھے کی طرف کیے جائیں گے۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ ان کے ہاتھ پیچھے کی طرف بندھے ہوئے ہوں گے۔