آیات 10 - 13
 

وَ اَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ وَرَآءَ ظَہۡرِہٖ ﴿ۙ۱۰﴾

۱۰۔ اور جس کا نامہ اعمال اس کی پشت کے پیچھے سے دیا جائے گا،

فَسَوۡفَ یَدۡعُوۡا ثُبُوۡرًا ﴿ۙ۱۱﴾

۱۱۔ پس وہ موت کو پکارے گا،

وَّ یَصۡلٰی سَعِیۡرًا ﴿ؕ۱۲﴾

۱۲۔ اور وہ جہنم میں جھلسے گا۔

اِنَّہٗ کَانَ فِیۡۤ اَہۡلِہٖ مَسۡرُوۡرًا ﴿ؕ۱۳﴾

۱۳۔ بلاشبہ یہ اپنے گھر والوں میں خوش رہتا تھا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَرَآءَ ظَہۡرِہٖ: یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض آیات میں فرمایا گیا ہے کہ ان کافروں کا نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ اس آیت میں فرمایا اس کی پشت کے پیچھے سے دیا جائے گا۔ ان دونوں میں تضاد اس لیے نہیں ہے کہ قرآن میں یہ بات بھی بتا دی گئی ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ اٰمِنُوۡا بِمَا نَزَّلۡنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّطۡمِسَ وُجُوۡہًا فَنَرُدَّہَا عَلٰۤی اَدۡبَارِہَاۤ۔۔۔۔ (۴ نساء: ۴۷)

اے وہ لوگو جنہیں کتاب دی گئی تھی اس پر ایمان لے آؤ جسے ہم نے نازل کیا ہے جو تمہارے پاس موجود کتاب کی بھی تصدیق کرتا ہے قبل اس کے کہ ہم (بہت سے) چہروں کو بگاڑ کر ان کی پیٹھ کی طرف پھیر دیں۔

لہٰذا عین ممکن ہے کہ ان کے چہرے پشت کی طرف ہوں اور نامہ اعمال بایاں ہاتھ میں دیا جائے۔

۲۔ اپنے نامۂ اعمال دیکھ کر وہ چیخ اٹھیں گے ہائے ہلاکت! یا یہ موت کو پکاریں گے۔ سورہ فرقان آیت ۱۴ میں ہے ایسے لوگوں کو کہا جائے گا:

لَا تَدۡعُوا الۡیَوۡمَ ثُبُوۡرًا وَّاحِدًا وَّ ادۡعُوۡا ثُبُوۡرًا کَثِیۡرًا﴿﴾

(تو ان سے کہا جائے گا) آج ایک موت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی اموات کو پکارو۔

یعنی زندگی نام کی کوئی چیز نہ ہو گی۔ ہر طرف موت ہی کی ہولناکی ہو گی۔

۳۔ اِنَّہٗ کَانَ فِیۡۤ اَہۡلِہٖ مَسۡرُوۡرًا: وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ دنیاوی لذتوں میں مگن رہتا تھا۔ کسی قسم کی فکر اسے لاحق نہیں تھی۔ نہ حلال و حرام، نہ جائز و ناجائز کا خیال تھا، نہ ظلم و زیادتی سے دور رہتا تھا۔ وہ تمام اخلاقی قدریں پامال کر کے خوشی اور مسرت حاصل کرنے میں ہمہ تن مصروف رہتا تھا چونکہ وہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا تھا۔ جب کہ متقین قیامت کے بارے میں فکرمند رہتے تھے اور ہمیشہ اس خوف میں رہتے تھے کہ کیا ہمارے اعمال قبول ہوتے ہیں؟ کیا ہمارے گناہ بخشے گئے ہیں؟ وہ اپنی دنیوی زندگی میں اس خوف میں رہتے تھے کہ اگر ہمارے اعمال قبول نہ ہوئے اور گناہ بخشے نہ گئے تو قیامت کے دن ہمارا کیا حال ہو گا۔

دنیوی زندگی میں اس خوف نے قیامت کے دن کے ہولناک حالات سے انہیں بچا لیا۔ چنانچہ دنیا میں جس خوف نے ان متقین کو قیامت کے دن امن دیا ہے وہ اس کا ذکر کرتے ہوں گے:

قَالُوۡۤا اِنَّا کُنَّا قَبۡلُ فِیۡۤ اَہۡلِنَا مُشۡفِقِیۡنَ﴿﴾ (۵۲ طور: ۲۶)

کہیں گے: پہلے ہم اپنے گھر والوں کے درمیان ڈرتے رہتے تھے۔


آیات 10 - 13