بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

اِقۡتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَ انۡشَقَّ الۡقَمَرُ﴿۱﴾

۱۔ قیامت قریب آ گئی اور چاند شق ہو گیا۔

1۔ شق قمر کو قرب قیامت کی علامت گردانا گیا ہے، کیونکہ چاند کا دو ٹکڑے ہو جانا اس بات کی علامت ہے کہ موجودہ نظام درہم برہم ہو سکتا ہے۔ اس نشانی کے مشاہدے کے باوجود لوگ قیامت پر ایمان نہیں رکھتے!!۔

یہ واقعہ ہجرت سے پانچ سال قبل کا ہے: مشرکین نے ایک دن رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا: ان کنت صادقا فشق لنا القمر فلقتین ۔ اگر آپ سچے ہیں تو ہمارے لیے چاند کے دو ٹکڑے کر دیں۔ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ان فعلت تؤمنون ؟ اگر میں نے ایسا کر دیا تو کیا تم ایمان لاؤ گے؟ لوگوں نے کہا: ہاں! چنانچہ چودھویں کا چاند تھا۔ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعا کی۔ فانشق القمر فلقتین و رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ینادی یا فلان یا فلان اشہدوا ۔ چنانچہ چاند دو ٹکڑے ہو گیا تو آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اے فلاں، اے فلاں گواہ رہنا۔ (بحار الانوار 17: 347) اس واقعہ کو اَجَلَّہْ اصحاب نے روایت کیا ہے۔ بعض کا یہ دعوی بھی ہے کہ یہ متواتر ہے۔

ایک سوال یہ پیدا کیا جاتا ہے کہ کیا آسمانی کرات میں شگاف ممکن ہے۔

جواب: نہ صرف ممکن ہے، بلکہ واقع ہوتا رہتا ہے۔ آسمانی پتھر آسمانی کرات کے منتشر اجزاء ہیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر قمر شق ہو گیا ہوتا تو اس وقت کی رصدگاہوں میں بہت سے لوگوں کو دکھائی دیتا۔ جواب: روایت کے مطابق چودھویں کا چاند شق ہو گیا تھا۔ اس وقت دوسرے علاقوں میں دکھائی نہیں دیتا تھا۔ جیسا کہ چاند گرہن بعض علاقوں میں دیکھا جاتا ہے، بعض میں نہیں۔

وَ اِنۡ یَّرَوۡا اٰیَۃً یُّعۡرِضُوۡا وَ یَقُوۡلُوۡا سِحۡرٌ مُّسۡتَمِرٌّ﴿۲﴾

۲۔ اور (کفار) اگر کوئی نشانی دیکھ لیتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ تو وہی ہمیشہ کا جادو ہے۔

سِحۡرٌ مُّسۡتَمِرٌّ ، ہمیشہ کا جادو کہنا خود اپنی جگہ ایک دلیل ہے کہ مشرکین نے اس سے پہلے متعدد معجزات کا مشاہدہ کیا ہے۔

وَ کَذَّبُوۡا وَ اتَّبَعُوۡۤا اَہۡوَآءَہُمۡ وَ کُلُّ اَمۡرٍ مُّسۡتَقِرٌّ﴿۳﴾

۳۔ انہوں نے تکذیب کی اور اپنی خواہشات کی پیروی کی اور ہر امر استقرار پانے والا ہے۔

3۔ یعنی معاملے کا ایک انجام ہوتا ہے، جس پر پہنچ کر اس کی اصلی حالت سامنے آ جاتی ہے۔ اگر یہ دین حق پر مبنی نہیں ہے تو کل اپنے انجام کو پہنچ کر فاش ہو جائے گا، ورنہ تم اپنے انجام کو پہنچ کر رسوا ہو جاؤ گے۔

وَ لَقَدۡ جَآءَہُمۡ مِّنَ الۡاَنۡۢبَآءِ مَا فِیۡہِ مُزۡدَجَرٌ ۙ﴿۴﴾

۴۔ اور بتحقیق ان کے پاس وہ خبریں آ چکی ہیں جو (کفر سے) باز رہنے کے لیے کافی ہیں،

حِکۡمَۃٌۢ بَالِغَۃٌ فَمَا تُغۡنِ النُّذُرُ ۙ﴿۵﴾

۵۔ (جن میں) حکیمانہ اور مؤثر (باتیں) ہیں لیکن تنبیہیں فائدہ مند نہیں رہیں۔

فَتَوَلَّ عَنۡہُمۡ ۘ یَوۡمَ یَدۡعُ الدَّاعِ اِلٰی شَیۡءٍ نُّکُرٍ ۙ﴿۶﴾

۶۔ پس آپ بھی ان سے رخ پھیر لیں، جس دن بلانے والا ایک ناپسندیدہ چیز کی طرف بلائے گا۔

6۔ ایسی چیز جو ان کے وہم و گمان میں نہ تھی۔ ان کو قیامت کے بارے میں بتایا گیا تھا اور وہ اس کے منکر تھے، اس کی نوعیت اور اس کی ہولناکی کا وہ تصور تک نہیں کر سکتے تھے۔

خُشَّعًا اَبۡصَارُہُمۡ یَخۡرُجُوۡنَ مِنَ الۡاَجۡدَاثِ کَاَنَّہُمۡ جَرَادٌ مُّنۡتَشِرٌ ۙ﴿۷﴾

۷۔ تو وہ آنکھیں نیچی کر کے قبروں سے نکل پڑیں گے گویا وہ بکھری ہوئی ٹڈیاں ہیں۔

7۔ بڑی ندامت کے ساتھ آنکھیں خشوع کی حالت میں ہوں گی کہ یہ وہی نئی زندگی ہے جس کے ہم منکر رہے ہیں اور اس کے لیے کوئی تیاری نہیں کی۔

مُّہۡطِعِیۡنَ اِلَی الدَّاعِ ؕ یَقُوۡلُ الۡکٰفِرُوۡنَ ہٰذَا یَوۡمٌ عَسِرٌ﴿۸﴾

۸۔ پکارنے والے کی طرف دوڑتے ہوئے جا رہے ہوں گے، اس وقت کفار کہیں گے: یہ بڑا کٹھن دن ہے۔

کَذَّبَتۡ قَبۡلَہُمۡ قَوۡمُ نُوۡحٍ فَکَذَّبُوۡا عَبۡدَنَا وَ قَالُوۡا مَجۡنُوۡنٌ وَّ ازۡدُجِرَ﴿۹﴾

۹۔ ان سے پہلے نوح کی قوم نے بھی تکذیب کی تھی، پس انہوں نے ہمارے بندے کی تکذیب کی اور کہنے لگے: دیوانہ ہے اور (جنات کی) جھڑکی کا شکار ہے۔

فَدَعَا رَبَّہٗۤ اَنِّیۡ مَغۡلُوۡبٌ فَانۡتَصِرۡ﴿۱۰﴾

۱۰۔ پس نوح نے اپنے رب کو پکارا: میں مغلوب ہو گیا ہوں پس تو انتقام لے۔