فَفَتَحۡنَاۤ اَبۡوَابَ السَّمَآءِ بِمَآءٍ مُّنۡہَمِرٍ ﴿۫ۖ۱۱﴾

۱۱۔ پھر ہم نے زوردار بارش سے آسمان کے دھانے کھول دیے۔

وَّ فَجَّرۡنَا الۡاَرۡضَ عُیُوۡنًا فَالۡتَقَی الۡمَآءُ عَلٰۤی اَمۡرٍ قَدۡ قُدِرَ ﴿ۚ۱۲﴾

۱۲۔ اور زمین کو شگافتہ کر کے ہم نے چشمے جاری کر دیے تو (دونوں) پانی اس امر پر مل گئے جو مقدر ہو چکا تھا۔

وَ حَمَلۡنٰہُ عَلٰی ذَاتِ اَلۡوَاحٍ وَّ دُسُرٍ ﴿ۙ۱۳﴾

۱۳۔ اور تختوں اور کیلوں والی (کشتی) پر ہم نے نوح کو سوار کیا۔

13۔ یعنی اس کشتی پر جو تختوں اور کیلوں سے بنی تھی۔

تَجۡرِیۡ بِاَعۡیُنِنَا ۚ جَزَآءً لِّمَنۡ کَانَ کُفِرَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ جو ہماری نگرانی میں چل رہی تھی، یہ بدلہ اس شخص کی وجہ سے تھا جس کی قدر شناسی نہیں کی گئی تھی۔

14۔ تَجۡرِیۡ بِاَعۡیُنِنَا : ہماری نگرانی اور حفاظت میں یہ کشتی چل رہی تھی۔ یہ ایک محاورہ ہے کہ اگر کسی کو یہ کہنا ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہے تو کہتے ہیں: انت بعین اللہ ۔

وَ لَقَدۡ تَّرَکۡنٰہَاۤ اٰیَۃً فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ﴿۱۵﴾

۱۵۔ اور بتحقیق اس (کشتی) کو ہم نے ایک نشانی بنا چھوڑا تو کیا کوئی نصیحت قبول کرنے والا ہے؟

فَکَیۡفَ کَانَ عَذَابِیۡ وَ نُذُرِ﴿۱۶﴾

۱۶۔ پس بتاؤ میرا عذاب اور میری تنبیہیں کیسی رہیں؟

وَ لَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّکۡرِ فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ﴿۱۷﴾

۱۷۔ اور بتحقیق ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنا دیا ہے تو کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟

17۔ نصیحت حاصل کرنے اور عبرت پکڑنے کی دعوت کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ لوگوں کو عذاب میں مبتلا کیا جائے اور ان پر بلا نازل کر کے نصیحت حاصل کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس امت پر رحم فرمایا اور نصیحت کے لیے عذاب اور بلا نازل کرنے کی بجائے قرآن کو بطور رحمت و نصیحت نازل کیا۔ اس لیے قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم صالح اور قوم لوط کو نصیحت دینے کے لیے نازل ہونے والی ہر آفت کے بعد اس بات کا ذکر بار بار آ رہا ہے کہ ہم نے قرآن کو نصیحت کا آسان ذریعہ بنا دیا ہے۔ آسانی کی ایک صورت یہ ہو گئی، دوسری صورت یہ ہے کہ جن باتوں سے انسان نے نصیحت حاصل کرنا ہوتی ہے انہیں نہایت سلیس اور واضح الفاظ میں مختلف انداز بیان میں تکرار کے ساتھ بیان کیا تاکہ آسانی سے لوگ ان نصیحتوں کو ذہن میں اتار لیں۔

کَذَّبَتۡ عَادٌ فَکَیۡفَ کَانَ عَذَابِیۡ وَ نُذُرِ﴿۱۸﴾

۱۸۔ عاد نے تکذیب کی تو بتاؤ میرا عذاب اور میری تنبیہیں کیسی تھیں؟

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ رِیۡحًا صَرۡصَرًا فِیۡ یَوۡمِ نَحۡسٍ مُّسۡتَمِرٍّ ﴿ۙ۱۹﴾

۱۹۔ ایک مسلسل نحوست کے دن ہم نے ان پر ایک طوفانی ہوا چلائی،

19۔ یہ دن قوم عاد کے لیے نحوست کا دن تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ اس دن میں نحوست ہے۔ یوم سے مراد زمانے کا ایک حصہ ہے، خواہ کئی دن ہوں، کیونکہ دیگر آیات میں اَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ کہا ہے۔ سورہ حاقۃ آیت 7 میں ان ایام کی تعداد آٹھ بتائی ہے: سَخَّرَہَا عَلَیۡہِمۡ سَبۡعَ لَیَالٍ وَّ ثَمٰنِیَۃَ اَیَّامٍ ۙ حُسُوۡمًا۔۔۔

تَنۡزِعُ النَّاسَ ۙ کَاَنَّہُمۡ اَعۡجَازُ نَخۡلٍ مُّنۡقَعِرٍ﴿۲۰﴾

۲۰۔جو لوگوں کو جڑ سے اکھڑے ہوئے کھجور کے تنوں کی طرح اٹھا کر پھینک رہی تھی۔