بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

قٓ ۟ۚ وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡمَجِیۡدِ ۚ﴿۱﴾

۱۔ قاف ، قسم ہے شان والے قرآن کی۔

بَلۡ عَجِبُوۡۤا اَنۡ جَآءَہُمۡ مُّنۡذِرٌ مِّنۡہُمۡ فَقَالَ الۡکٰفِرُوۡنَ ہٰذَا شَیۡءٌ عَجِیۡبٌ ۚ﴿۲﴾

۲۔ بلکہ انہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ خود انہی میں سے ایک تنبیہ کرنے والا ان کے پاس آیا تو کفار کہنے لگے : یہ تو ایک عجیب چیز ہے۔

2۔ مشرکین کسی انسان کے خدا کا رسول ہونے کو نہیں مانتے تھے۔ اس لیے ان کا انکار تعجب کے ساتھ تھا کہ کیسے ہو سکتا ہے ہماری طرح کا انسان اللہ کا فرستادہ ہو جائے۔

ءَاِذَا مِتۡنَا وَ کُنَّا تُرَابًا ۚ ذٰلِکَ رَجۡعٌۢ بَعِیۡدٌ﴿۳﴾

۳۔ کیا جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے (پھر زندہ کیے جائیں گے؟) یہ واپسی تو بہت بعید بات ہے۔

3۔ دوسری تعجب کی بات یہ ہے کہ جب ہم مرنے کے بعد خاک ہو جائیں گے تو دوبارہ زندہ ہو جائیں گے، یہ عقل و فہم سے دور کی بات ہے۔ اگلی آیت میں اس کی رد ہے:

قَدۡ عَلِمۡنَا مَا تَنۡقُصُ الۡاَرۡضُ مِنۡہُمۡ ۚ وَ عِنۡدَنَا کِتٰبٌ حَفِیۡظٌ﴿۴﴾

۴۔ زمین ان (کے جسم) میں سے جو کچھ کم کرتی ہے اس کا ہمیں علم ہے اور ہمارے پاس محفوظ رکھنے والی کتاب ہے۔

4۔ اللہ کے علم میں ہے کہ زمین انسان کے جسم کو کھاتی ہے اور خاک کے ذرات میں بدل دیتی ہے۔ پھر وہ قیامت تک زمین کے اطراف میں دور دور تک پھیل جاتے ہیں۔ اللہ کے علم میں ہے کہ اس جسم کا کون سا ذرہ کس جگہ ہے۔ اس کے جسم کے ذرات کرہ ارض کی محدودیت میں ہیں، اگر پوری کائنات میں پھیل جاتے تو بھی اس کے ذرات اللہ کی اس کتاب سے پوشیدہ نہیں رہ سکتے جس میں ہر چیز محفوظ ہے۔ وہ ان سب ذرات کو اسی طرح جمع کرے گا جس طرح اس نے دنیا کے اطراف سے ذرات کو جمع کر کے انسان کو پیدا کیا۔ کسی ملک سے گندم، ہمالیہ سے پانی، کسی باغ سے پھل اور کسی کھیت سے سبزی جمع کی اور ایک بوند تیار کی۔

بَلۡ کَذَّبُوۡا بِالۡحَقِّ لَمَّا جَآءَہُمۡ فَہُمۡ فِیۡۤ اَمۡرٍ مَّرِیۡجٍ﴿۵﴾

۵۔ بلکہ جب حق ان کے پاس آیا تو انہوں نے اسے جھٹلایا لہٰذا اب وہ ایک الجھن میں مبتلا ہیں۔

اَفَلَمۡ یَنۡظُرُوۡۤا اِلَی السَّمَآءِ فَوۡقَہُمۡ کَیۡفَ بَنَیۡنٰہَا وَ زَیَّنّٰہَا وَ مَا لَہَا مِنۡ فُرُوۡجٍ﴿۶﴾

۶۔ کیا ان لوگوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے کس طرح بنایا اور مزین کیا؟ اور اس میں کوئی شگاف بھی نہیں ہے۔

6۔ کرﮤ ارض ایک حفاظتی ڈھال میں محفوظ ہے۔ یہ ڈھال سورج سے آنے والی قاتل شعاعوں اور ہر روز زمین کی طرف کروڑوں کی تعداد میں آنے والے آسمانی پتھروں (شہاب ثاقب) کو روک لیتی ہے، جس کی وجہ سے اہل ارض امن و سکون کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ لہٰذا آسمان میں کوئی رخنہ ایسا نہیں جہاں سے آفتیں بلا روک ٹوک زمین کی طرف آ سکیں۔ اگر انسان کی اپنی کرتوتوں کی وجہ سے حلقہ اوزون میں رخنہ پڑ جاتا ہے تو وہ دوسری بات ہے۔

وَ الۡاَرۡضَ مَدَدۡنٰہَا وَ اَلۡقَیۡنَا فِیۡہَا رَوَاسِیَ وَ اَنۡۢبَتۡنَا فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ زَوۡجٍۭ بَہِیۡجٍ ۙ﴿۷﴾

۷۔ اور اس زمین کو ہم نے پھیلایا اور اس میں ہم نے پہاڑ ڈال دیے اور اس میں ہر قسم کے خوشنما جوڑے ہم نے اگائے،

بَہِیۡجٍ خوشنما کو کہتے ہیں۔ یعنی زمین میں نباتات کے خوشنما جوڑے اور قسمیں اگائیں۔

تَبۡصِرَۃً وَّ ذِکۡرٰی لِکُلِّ عَبۡدٍ مُّنِیۡبٍ﴿۸﴾

۸۔ تاکہ (اللہ کی طرف) رجوع کرنے والے ہر بندے کے لیے بینائی و نصیحت (کا ذریعہ) بن جائے۔

وَ نَزَّلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً مُّبٰرَکًا فَاَنۡۢبَتۡنَا بِہٖ جَنّٰتٍ وَّ حَبَّ الۡحَصِیۡدِ ۙ﴿۹﴾

۹۔ اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی نازل کیا جس سے ہم نے باغات اور کاٹے جانے والے دانے اگائے۔

9۔ پانی ہی کی برکت سے زمین میں زندگی کی چہل پہل اور شادابی ہے اور اللہ تعالیٰ کے جمال و کمال کے مظاہر پانی کی بدولت روئے زمین پر نظر آتے ہیں۔

وَ النَّخۡلَ بٰسِقٰتٍ لَّہَا طَلۡعٌ نَّضِیۡدٌ ﴿ۙ۱۰﴾

۱۰۔ اور کھجور کے بلند و بالا درخت پیدا کیے جنہیں تہ بہ تہ خوشے لگے ہوتے ہیں۔