وَ اِذۡ اَوۡحَیۡتُ اِلَی الۡحَوَارِیّٖنَ اَنۡ اٰمِنُوۡا بِیۡ وَ بِرَسُوۡلِیۡ ۚ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا وَ اشۡہَدۡ بِاَنَّنَا مُسۡلِمُوۡنَ﴿۱۱۱﴾

۱۱۱۔ اور جب میں نے حواریوں پر الہام کیا کہ وہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لے آئیں تو وہ کہنے لگے: ہم ایمان لے آئے اور گواہ رہیے کہ ہم مسلمان ہیں۔

111۔ یہاں وحی سے مراد الہام ہے جیسا کہ قرآن نے متعدد جگہوں پر الہام کو وحی سے تعبیر کیا ہے۔ یہ الہام ایمان لانے اور حواری کے مقام پر فائز ہونے کے بعد تجدید عہد کے لیے ہوا۔

اِذۡ قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ یٰعِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ ہَلۡ یَسۡتَطِیۡعُ رَبُّکَ اَنۡ یُّنَزِّلَ عَلَیۡنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ ؕ قَالَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۱۲﴾

۱۱۲۔ (وہ وقت یاد کرو) جب حواریوں نے کہا: اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ کا رب ہمارے لیے آسمان سے کھانے کا خوان اتار سکتا ہے؟ تو عیسیٰ نے کہا : اگر تم مومن ہو تو اللہ سے ڈرو۔

قَالُوۡا نُرِیۡدُ اَنۡ نَّاۡکُلَ مِنۡہَا وَ تَطۡمَئِنَّ قُلُوۡبُنَا وَ نَعۡلَمَ اَنۡ قَدۡ صَدَقۡتَنَا وَ نَکُوۡنَ عَلَیۡہَا مِنَ الشّٰہِدِیۡنَ﴿۱۱۳﴾ ۞ٙ

۱۱۳۔ انہوں نے کہا: ہم چاہتے ہیں کہ اس (خوان) میں سے کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہوں اور یہ جان لیں کہ آپ نے ہم سے سچ کہا ہے اور اس پر ہم گواہ رہیں۔

قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ اللّٰہُمَّ رَبَّنَاۤ اَنۡزِلۡ عَلَیۡنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ تَکُوۡنُ لَنَا عِیۡدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَۃً مِّنۡکَ ۚ وَ ارۡزُقۡنَا وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ﴿۱۱۴﴾

۱۱۴۔ تب عیسیٰ بن مریم نے دعا کی: اے اللہ!اے ہمارے رب! ہمارے لیے آسمان سے کھانے کا ایک خوان نازل فرما کہ ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے وہ دن عید اور تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں رزق دے کہ تو بہترین رزق دینے والا ہے۔

قَالَ اللّٰہُ اِنِّیۡ مُنَزِّلُہَا عَلَیۡکُمۡ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بَعۡدُ مِنۡکُمۡ فَاِنِّیۡۤ اُعَذِّبُہٗ عَذَابًا لَّاۤ اُعَذِّبُہٗۤ اَحَدًا مِّنَ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۱۵﴾٪

۱۱۵۔ اللہ نے فرمایا: میں یہ خوان تم پر نازل کرنے والا ہوں، لیکن اگر اس کے بعد تم میں سے کوئی کفر اختیار کرے گا تو اسے میں ایسا عذاب دوں گا کہ اس جیسا عذاب عالمین میں کسی کو نہ دیا ہو گا۔

112 تا 115۔ یہ سوال حواریوں کی طرف سے اس وقت کیا گیا جب وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لا چکے تھے اور ان کے حواریوں میں شامل ہو گئے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ حواری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی معجزانہ ولادت اور گہوارے میں کلام کرنے کو دیکھ کر ایمان لائے، اس کے باوجود مائدہ کا مطالبہ کیا معنی رکھتا ہے؟۔

جواب یہ ہے کہ درست ہے کہ ان کا یہ مطالبہ ایک قسم کے عدم اطمینان کا اظہار تھا۔ اس لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کو ان الفاظ میں سرزنش کی: اتَّقُوا اللہَ اِنْ كُنْتُمْ مومنيْنَ ۔ اگر تم ایمان والے ہو تو خدا سے ڈرو۔ یعنی ایسی خلاف ایمان باتیں نہ کرو۔ لیکن حواریوں نے اپنے مطالبہ کے جائز ہونے اور نیک نیتی پر مبنی ہونے اور یہ مطالبہ ایمان کے منافی نہ ہونے پر درج ذیل مطالب بیان کیے ہیں: 1۔ اس خوان سے کھا کر ہمارے دلوں میں اطمینان آئے گا۔ 2۔ آپ کی نبوت کی صداقت پر ایک اور تازہ معجزہ سامنے آئے گا۔ 3۔ دوسروں کے لیے ہم آپ کی صداقت پر گواہی دیں گے۔

سیاق آیت سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی توجیہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پسند فرمائی اور نزول مائدہ کی دعا کے ضمن میں اس کے دیگر فوائد و مصالح کی طرف اشارہ فرمایا: 1۔ نزول مائدہ پوری امت کے لیے عید بن جائے۔ 2۔ امت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے ایک خصوصی نشانی کی حیثیت بن جائے۔ 3۔ اللہ کی طرف سے پانے والے براہ راست رزق کی سعادت سے مالا مال ہو جائے۔

دعائے مسیح علیہ السلام کا شرف قبولیت حاصل کرنا ایک طبیعی امر ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں خواں نازل کرنے والا ہوں۔ اللہ کی طرف سے ایک حتمی وعدہ آنے کے بعد خوان نازل ہونا قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔ اگرچہ بعض مفسرین بعض روایت کی بنا پر لکھتے ہیں: سخت ترین عذاب کی دھمکی سن کر حواریوں نے اپنا مطالبہ واپس لے لیا۔

موجودہ اناجیل میں اس خوان کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ بعض واقعات ملتے ہیں لیکن جو واقعہ قرآن نے بیان کیا ہے اس کے مطابق نہیں ہیں۔ لہذا ممکن ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صدیوں بعد جمع ہونے والی اناجیل سے یہ واقعہ رہ گیا ہو اور عین ممکن ہے کہ اس واقعہ کے ضمن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ابن اللہ نہ ہونے اور رسول ہونے پر واضح دلائل موجود ہوں۔ اس لیے اسے حذف کر دیا گیا ہو۔

وَ اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ ءَاَنۡتَ قُلۡتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوۡنِیۡ وَ اُمِّیَ اِلٰہَیۡنِ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ قَالَ سُبۡحٰنَکَ مَا یَکُوۡنُ لِیۡۤ اَنۡ اَقُوۡلَ مَا لَیۡسَ لِیۡ ٭ بِحَقٍّ ؕ؃ اِنۡ کُنۡتُ قُلۡتُہٗ فَقَدۡ عَلِمۡتَہٗ ؕ تَعۡلَمُ مَا فِیۡ نَفۡسِیۡ وَ لَاۤ اَعۡلَمُ مَا فِیۡ نَفۡسِکَ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ عَلَّامُ الۡغُیُوۡبِ﴿۱۱۶﴾

۱۱۶۔ اور (وہ وقت یاد کرو ) جب اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری والدہ کو خدا بناؤ؟ عیسیٰ نے عرض کی: تو پاک ہے میں ایسی بات کیسے کہ سکتا ہوں جس کا مجھے کوئی حق ہی نہیں؟ اگر میں نے ایسا کچھ کہا ہوتا تو تجھے اس کا علم ہوتا، کیونکہ تو میرے دل کی بات جانتا ہے لیکن میں تیرے اسرار نہیں جانتا، یقینا تو ہی غیب کی باتیں خوب جاننے والا ہے۔

116۔ عیسائیوں نے باپ، بیٹے اور روح القدس کے ساتھ حضرت مریم علیہ السلام کو ”مادر خدا“ کے نام سے معبود بنا لیا ہے۔ ”مادر خدا“ کا لقب پہلی بار 431ء میں منعقدہ کونسل نے استعمال کیا۔ اس کے بعد ”مادر خدا“ کی اہمیت باپ، بیٹے اور روح القدس سے زیادہ ہو گئی۔ اگرچہ پروٹسٹنٹوں کی اصلاحی تحریک کے بعد اس فرقے میں حضرت مریم (س) کی پرستش میں کمی آگئی۔

دُوۡنِ اللّٰہِ : اللہ کو چھوڑ کر مسیح علیہ السلام اور مریم (س) کو معبود بنانے سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی وحدانیت کو چھوڑ کر، ورنہ وہ مسیح علیہ السلام اور مریم (س) کے ساتھ اللہ کو بھی معبود سمجھتے تھے کیونکہ اللہ کی وہ عبادت قبول ہے جو اس کی وحدانیت کے ساتھ ہو۔ شرک کے ساتھ ایمان و عبادت قابل قبول نہیں ہے۔

مَا قُلۡتُ لَہُمۡ اِلَّا مَاۤ اَمَرۡتَنِیۡ بِہٖۤ اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیۡ وَ رَبَّکُمۡ ۚ وَ کُنۡتُ عَلَیۡہِمۡ شَہِیۡدًا مَّا دُمۡتُ فِیۡہِمۡ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کُنۡتَ اَنۡتَ الرَّقِیۡبَ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ اَنۡتَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ﴿۱۱۷﴾

۱۱۷۔میں نے تو ان سے صرف وہی کہا جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ اس اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے، جب تک میں ان کے درمیان رہا میں ان پر گواہ رہا اور جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو خود ہی ان پر نگران ہے اور تو ہی ہر چیز پر گواہ ہے۔

117۔ مَا قُلۡتُ لَہُمۡ اِلَّا مَاۤ اَمَرۡتَنِیۡ : چنانچہ موجودہ تثلیثی انجیل میں بھی یہ اعتراف موجود ہے: ”ابدی زندگی یہ ہے کہ لوگ تیری معرفت حاصل کریں کہ تو ہی حقیقی اور واحد معبود ہے۔یسوع مسیح کو آپ نے بھیجا۔“ (یوحنا 7: 3۔ بحوالہ المنار)

اِنۡ تُعَذِّبۡہُمۡ فَاِنَّہُمۡ عِبَادُکَ ۚ وَ اِنۡ تَغۡفِرۡ لَہُمۡ فَاِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ﴿۱۱۸﴾

۱۱۸۔ اگر تو انہیں عذاب دے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو تو ہی غالب آنے والا حکمت والا ہے۔

118۔ فَاِنَّہُمۡ عِبَادُکَ اگر تو انہیں عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں۔ اس تعبیر میں ایک قسم کی رحم طلبی ہے اور ساتھ آداب بندگی کا اظہار بھی ہے کہ یہ تیرے ہی بندے ہیں۔ ان پر صرف تیرا حکم نافذ ہے۔

قَالَ اللّٰہُ ہٰذَا یَوۡمُ یَنۡفَعُ الصّٰدِقِیۡنَ صِدۡقُہُمۡ ؕ لَہُمۡ جَنّٰتٌ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ﴿۱۱۹﴾

۱۱۹۔ اللہ نے فرمایا: یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کی سچائی فائدہ دے گی، ان کے لیے ایسی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں وہ ابد تک ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں، یہی بڑی کامیابی ہے۔

119۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جواب سچائی کا ایک اعلی نمونہ ہے کہ بروز قیامت اللہ کی بارگاہ میں جو بیان دیا وہ سب حق پر مبنی تھا اور وہ اپنی ساری باتوں میں صادق القول نکلے۔ آخرت میں اللہ کے سامنے صادق القول وہ ہو سکتے ہیں جنہوں نے دنیا میں کوئی نافرمانی نہ کی ہو۔

اس کے بعد ایسے صادق القول افراد کے بارے میں جنت کی بشارت کے بعد فرمایا: رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ ان سے اللہ راضی ہو گا۔ حقیقی بندوں کے لیے اللہ کی رضایت کے مقابلہ میں جنت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا فِیۡہِنَّ ؕ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۱۲۰﴾٪

۱۲۰۔ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان موجود ہے سب پر اللہ کی سلطنت ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔