آیات 116 - 118
 

وَ اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ ءَاَنۡتَ قُلۡتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوۡنِیۡ وَ اُمِّیَ اِلٰہَیۡنِ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ قَالَ سُبۡحٰنَکَ مَا یَکُوۡنُ لِیۡۤ اَنۡ اَقُوۡلَ مَا لَیۡسَ لِیۡ ٭ بِحَقٍّ ؕ؃ اِنۡ کُنۡتُ قُلۡتُہٗ فَقَدۡ عَلِمۡتَہٗ ؕ تَعۡلَمُ مَا فِیۡ نَفۡسِیۡ وَ لَاۤ اَعۡلَمُ مَا فِیۡ نَفۡسِکَ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ عَلَّامُ الۡغُیُوۡبِ﴿۱۱۶﴾

۱۱۶۔ اور (وہ وقت یاد کرو ) جب اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری والدہ کو خدا بناؤ؟ عیسیٰ نے عرض کی: تو پاک ہے میں ایسی بات کیسے کہ سکتا ہوں جس کا مجھے کوئی حق ہی نہیں؟ اگر میں نے ایسا کچھ کہا ہوتا تو تجھے اس کا علم ہوتا، کیونکہ تو میرے دل کی بات جانتا ہے لیکن میں تیرے اسرار نہیں جانتا، یقینا تو ہی غیب کی باتیں خوب جاننے والا ہے۔

مَا قُلۡتُ لَہُمۡ اِلَّا مَاۤ اَمَرۡتَنِیۡ بِہٖۤ اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیۡ وَ رَبَّکُمۡ ۚ وَ کُنۡتُ عَلَیۡہِمۡ شَہِیۡدًا مَّا دُمۡتُ فِیۡہِمۡ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کُنۡتَ اَنۡتَ الرَّقِیۡبَ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ اَنۡتَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ﴿۱۱۷﴾

۱۱۷۔میں نے تو ان سے صرف وہی کہا جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ اس اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے، جب تک میں ان کے درمیان رہا میں ان پر گواہ رہا اور جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو خود ہی ان پر نگران ہے اور تو ہی ہر چیز پر گواہ ہے۔

اِنۡ تُعَذِّبۡہُمۡ فَاِنَّہُمۡ عِبَادُکَ ۚ وَ اِنۡ تَغۡفِرۡ لَہُمۡ فَاِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ﴿۱۱۸﴾

۱۱۸۔ اگر تو انہیں عذاب دے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو تو ہی غالب آنے والا حکمت والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اتَّخِذُوۡنِیۡ وَ اُمِّیَ اِلٰہَیۡنِ: اے عیسیٰ کیا آپ نے لوگوں سے کہا تھا، اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری والدہ کو معبود بناؤ؟

اگرچہ مسیحی تعلیمات میں حضرت مریم (س) کو معبود بنانے کا تصور سرے سے نہیں ہے لیکن حضرت عیسیٰ (ع) کے صدیوں بعد مسیحیوں نے مریم (س) کو مادر خدا کا لقب دیا۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ حضرت مریم (س) کو الوہیت کا مقام دینا شروع کیا۔ بعد میں چرچ کی طرف سے اسے رسمیت بھی حاصل ہوگئی۔ اس کے بعد کیتھولک گرجاؤں میں ان کی قدآور تصویریں آویزاں کرنا شروع ہو گیا، جن کے سامنے وہ مریم (س) کی عبادت کے مراسم ادا کرنے لگے۔ حضرت مریم (س) کی عبادت کے مختلف مظاہر سامنے آنے شروع ہو گئے۔ ایک تو یہ کہ ان کی حمد و ثنا پر مشتمل نماز۔ دوسرا ان کے آگے مشکل کشائی کے لیے دعائیں کرنا۔ تیسرا ان کے نام روزہ رکھنا جو صیام مریم سے موسوم تھا۔

تفسیر روح المعانی کے مطابق عیسائیوں میں ایک قوم ایسی گزری ہے جو حضرت مریم (س) کے خدا ہونے کی قائل تھی۔

مریم پرستی کی شدت میں ظہور اسلام کے بعد پروٹسٹنٹ کی اصلاحی تحریک سے کمی آگئی ہے۔

۲۔ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ: اللہ کو چھوڑ کر مسیح اور مریم کو خدا بنانے سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی وحدانیت کو چھوڑ کر۔ ورنہ وہ مسیح و مادر مسیح و روح القدس کے ساتھ اللہ کو بھی معبود بناتے ہیں، کیونکہ اللہ کی مطلق عبادت مطلوب نہیں ہے، بلکہ وحدانیت کے ساتھ عبادت ہو تو یہ اللہ کی عبادت ہے۔ شرک کے ساتھ ایمان و عبادت قابل تسلیم نہیں ہے۔

۳۔ مَا قُلۡتُ لَہُمۡ اِلَّا مَاۤ اَمَرۡتَنِیۡ: میں نے تو ان سے صرف وہی کہا ہے جس کا تو نے حکم دیا تھا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو، جو میرا اور تمہارا رب ہے۔

چنانچہ موجودہ تثلیثی انجیل بھی اس اعتراف سے خالی نہیں ہے:

ابدی زندگی یہ ہے کہ لوگ تیری معرفت حاصل کریں کہ تو ہی حقیقی اور واحد معبود ہے۔ یسوع مسیح کو آپ نے بھیجا ۔ (یوحنا ۷: ۳ از المنار)

۴۔ وَ کُنۡتُ عَلَیۡہِمۡ شَہِیۡدًا مَّا دُمۡتُ فِیۡہِمۡ: جب تک میں ان کے درمیان رہا میں ان پر گواہ رہا۔ اس جملے میں یہ علم ہو گیا کہ رسول کی دو ذمہ داریاں ہوتی ہیں: ایک تبلیغ اور دوسری گواہی دینا۔ یعنی ہر رسول اپنی امت کے اعمال پر گواہ ہوتا ہے۔ چنانچہ اس سے پہلے آیت میں ذکر ہوا کہ قیامت کے دن اللہ سب رسولوں کو جمع کر کے ان سے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب ملا؟ چنانچہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا: وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یَکُوۡنُ عَلَیۡہِمۡ شَہِیۡدًا (۴ نساء: ۱۵۹) قیامت کے دن وہ (مسیح) ان پر گواہ ہوں گے۔

۵۔ اِنۡ تُعَذِّبۡہُمۡ فَاِنَّہُمۡ عِبَادُکَ: اگر تو انہیں عذاب دے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں۔ اس تعبیر میں کہ یہ تیرے ہی بندے ہیں، ایک قسم کی رحم طلبی کا شائبہ ہے۔ کیونکہ اگر مقام انتقام میں ہوتے تو یہ کہتے: یہ لوگ مشرک ہیں۔ ساتھ ہی بندگی کے آداب کا اظہار بھی ہے: یہ تیرے بندے ہیں، جن پر صرف تیرا ہی حکم نافذ ہوتا ہے۔

احادیث

منقول ہے کہ سلیمان بن خالد، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھتے ہیں کہ کیا حضرت عیسیٰ (ع) نے اللہ کے جواب میں مذکورہ باتیں کی ہیں؟ فرمایا:

ان اﷲ اذا اراد امراً ان یکون، قصّہ قبل ان یکون کأن قد کان ۔ (نور الثقلین۔ بحار الانوار ۹: ۲۰۰)

اللہ جب کسی امر کا ارادہ فرماتا ہے تو اس واقعہ کو اس طرح بیان فرماتا ہے کہ گویا وقوع پذیر ہوا ہے۔

اہم نکات

۱۔ قیامت کے دن تمام رسولوں سے سوال ہو گا، خاص کر عیسیٰ (ع) سے۔

۲۔ مسیح (ع) نے کبھی شرک کی دعوت نہیں دی۔ وہ معصوم تھے۔ ایسی باتوں سے پاک تھے۔


آیات 116 - 118