آیات 112 - 115
 

اِذۡ قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ یٰعِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ ہَلۡ یَسۡتَطِیۡعُ رَبُّکَ اَنۡ یُّنَزِّلَ عَلَیۡنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ ؕ قَالَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۱۲﴾

۱۱۲۔ (وہ وقت یاد کرو) جب حواریوں نے کہا: اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ کا رب ہمارے لیے آسمان سے کھانے کا خوان اتار سکتا ہے؟ تو عیسیٰ نے کہا : اگر تم مومن ہو تو اللہ سے ڈرو۔

قَالُوۡا نُرِیۡدُ اَنۡ نَّاۡکُلَ مِنۡہَا وَ تَطۡمَئِنَّ قُلُوۡبُنَا وَ نَعۡلَمَ اَنۡ قَدۡ صَدَقۡتَنَا وَ نَکُوۡنَ عَلَیۡہَا مِنَ الشّٰہِدِیۡنَ﴿۱۱۳﴾

۱۱۳۔ انہوں نے کہا: ہم چاہتے ہیں کہ اس (خوان) میں سے کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہوں اور یہ جان لیں کہ آپ نے ہم سے سچ کہا ہے اور اس پر ہم گواہ رہیں۔

قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ اللّٰہُمَّ رَبَّنَاۤ اَنۡزِلۡ عَلَیۡنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ تَکُوۡنُ لَنَا عِیۡدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَۃً مِّنۡکَ ۚ وَ ارۡزُقۡنَا وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ﴿۱۱۴﴾

۱۱۴۔ تب عیسیٰ بن مریم نے دعا کی: اے اللہ!اے ہمارے رب! ہمارے لیے آسمان سے کھانے کا ایک خوان نازل فرما کہ ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے وہ دن عید اور تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں رزق دے کہ تو بہترین رزق دینے والا ہے۔

قَالَ اللّٰہُ اِنِّیۡ مُنَزِّلُہَا عَلَیۡکُمۡ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بَعۡدُ مِنۡکُمۡ فَاِنِّیۡۤ اُعَذِّبُہٗ عَذَابًا لَّاۤ اُعَذِّبُہٗۤ اَحَدًا مِّنَ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۱۵﴾٪

۱۱۵۔ اللہ نے فرمایا: میں یہ خوان تم پر نازل کرنے والا ہوں، لیکن اگر اس کے بعد تم میں سے کوئی کفر اختیار کرے گا تو اسے میں ایسا عذاب دوں گا کہ اس جیسا عذاب عالمین میں کسی کو نہ دیا ہو گا۔

تفسیر آیات

یہ سوال حواریوں کی طرف سے اس وقت کیا گیا جب وہ حضرت عیسیٰ (ع) پر ایمان لا چکے تھے اور ان کے حواریوں میں شامل ہو گئے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ حواری حضرت عیسیٰ (ع) کی معجزانہ ولادت اور گہوارہ میں کلام کرنے کو دیکھ کر ایمان لائے، اس کے باوجود مائدہ کا مطالبہ کیا معنی رکھتا ہے؟

جواب یہ ہے کہ کہ درست ہے کہ ان کا یہ مطالبہ ایک قسم کے عدم اطمینان کا اظہار تھا، اس لیے حضرت عیسیٰ نے ان کو ان الفاظ میں سرزنش کی:

اتَّقُوا اللّٰہَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ۔

اگر تم ایمان والے ہو تو خدا سے ڈرو۔

یعنی ایسی خلاف ایمان باتیں نہ کرو۔

لیکن حواریوں نے اپنے مطالبہ کے جائز اور نیک نیتی پر مبنی ہونے اور یہ مطالبہ ایمان کے منافی نہ ہونے پر درج ذیل مطالب بیان کیے:

وَ تَطۡمَئِنَّ قُلُوۡبُنَا اس خوان سے کھا کر ہمارے دلوں میں اطمینان آئے گا۔

ii۔ وَ نَعۡلَمَ اَنۡ قَدۡ صَدَقۡتَنَا: آپؑ کی نبوت کی صداقت پر ایک اور تازہ معجزہ سامنے آئے گا۔

iii۔ وَ نَکُوۡنَ عَلَیۡہَا مِنَ الشّٰہِدِیۡنَ: دوسروں کے لیے ہم آپؑ کی صداقت پر گواہی دیں گے۔

سیاق آیت سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی توجیہ حضرت عیسیٰ (ع) نے پسند فرمائی اور نزول مائدہ کی دعا کے ضمن میں اس کے دیگر فوائد و مصالح کی طرف اشارہ فرمایا:

تَکُوۡنُ لَنَا عِیۡدًا: نزول مائدہ پوری امت کے لیے عید بن جائے۔

ii۔ وَ اٰیَۃً مِّنۡکَ: امت عیسیٰ (ع) کے لیے ایک خصوصی نشانی کی حیثیت بن جائے۔

iii۔ وَ ارۡزُقۡنَا: اللہ کی طرف سے پانے والے براہ راست رزق کی سعادت سے مالا مال ہو جائیں۔

دعائے مسیح (ع) نے شرف قبولیت حاصل کرنا ہی تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں خوان نازل کرنے والا ہوں۔ اللہ کی طرف سے ایک حتمی وعدہ آنے کے بعد خواں نازل ہونا قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔ اگرچہ بعض مفسرین بعض روایت کی بنا پر لکھتے ہیں: سخت ترین عذاب کی دھمکی سن کر حواریوں نے اپنا مطالبہ واپس لے لیا۔

موجودہ اناجیل میں اس خوان کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ بعض واقعات ملتے ہیں لیکن جو واقعہ قرآن نے بیان کیا ہے، اس کے مطابق نہیں ہے۔ لہٰذا ممکن ہے کہ حضرت عیسیٰ (ع) کے صدیوں بعد جمع ہونے والی اناجیل سے یہ واقعہ رہ گیا ہو اور عین ممکن ہے کہ اس واقعہ کے ضمن میں حضرت عیسیٰ (ع) کے ابن اللہ نہ ہونے اور رسول ہونے پر واضح دلائل موجود ہوں، اس لیے اسے حذف کر دیا ہو۔

اہم نکات

۱۔ بلا ضرورت معجزہ کا مطالبہ بھی ایک قسم کا انکار ہے: اتَّقُوا اللّٰہَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ۔

۲۔ اسلاف کے کارنامے نسلوں کے لیے اثر چھوڑتے ہیں: عِیۡدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا ۔۔۔۔

۳۔ معجزات و دلائل سے ایمان میں اضافہ ہو سکتا ہے: وَ تَطۡمَئِنَّ قُلُوۡبُنَا ۔۔۔۔

۴۔ معجزات و دلائل کے بعد انتقام بھی سخت ہو گا: اُعَذِّبُہٗۤ عَذَابًا ۔۔۔۔


آیات 112 - 115