آیات 119 - 120
 

قَالَ اللّٰہُ ہٰذَا یَوۡمُ یَنۡفَعُ الصّٰدِقِیۡنَ صِدۡقُہُمۡ ؕ لَہُمۡ جَنّٰتٌ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ﴿۱۱۹﴾

۱۱۹۔ اللہ نے فرمایا: یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کی سچائی فائدہ دے گی، ان کے لیے ایسی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں وہ ابد تک ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں، یہی بڑی کامیابی ہے۔

لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا فِیۡہِنَّ ؕ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۱۲۰﴾٪

۱۲۰۔ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان موجود ہے سب پر اللہ کی سلطنت ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

تفسیر آیات

حضرت عیسیٰ (ع) کا جواب سچائی کا ایک اعلی نمونہ ہے کہ بروز قیامت اللہ کی بارگاہ میں جو بیان دیا وہ سب حق پر مبنی تھا اور وہ اپنی ساری باتوں میں صادق القول نکلے۔ آخرت میں اللہ کے سامنے صادق القول وہ ہو سکتے ہیں جنہوں نے دنیا میں کوئی نافرمانی نہ کی ہو۔

اس کے بعد ایسے صادق القول افراد کے بارے میں جنت کی بشارت کے بعد فرمایا: رَضِيَ اللہُ عَنْہُمْ ۔ ان سے اللہ راضی ہو گا۔ حقیقی بندوں کے لیے اللہ کی رضایت کے مقابلہ میں جنت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ چنانچہ سورہ توبہ میں جنت کے ذکرکے بعد فرمایا:

وَ رِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکۡبَرُ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ (۹ توبہ: ۷۲)

اور اللہ کی طرف سے خوشنودی تو ان سب سے بڑھ کر ہے، یہی تو بڑی کامیابی ہے۔

اہم نکات

۱۔قیامت کے دن سچ بولنے کے لیے دنیا میں گناہ نہ کرنا ہو گا: یَنۡفَعُ الصّٰدِقِیۡنَ ۔۔۔۔

۲۔ ہر عمل کا مطمحِ نظر رضائے الٰہی ہونا چاہیے: رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ ۔۔۔۔


آیات 119 - 120