قَالَ فَمَا خَطۡبُکُمۡ اَیُّہَا الۡمُرۡسَلُوۡنَ﴿۳۱﴾

۳۱۔ ابراہیم نے کہا: اے اللہ کے بھیجے ہوئے (فرشتو) آپ کی (اصل) مہم کیا ہے؟

قَالُوۡۤا اِنَّاۤ اُرۡسِلۡنَاۤ اِلٰی قَوۡمٍ مُّجۡرِمِیۡنَ ﴿ۙ۳۲﴾

۳۲۔ انہوں نے کہا: ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں،

لِنُرۡسِلَ عَلَیۡہِمۡ حِجَارَۃً مِّنۡ طِیۡنٍ ﴿ۙ۳۳﴾

۳۳۔تاکہ ہم ان پر مٹی کے کنکر برسائیں،

مُّسَوَّمَۃً عِنۡدَ رَبِّکَ لِلۡمُسۡرِفِیۡنَ﴿۳۴﴾

۳۴۔ جو حد سے تجاوز کرنے والوں کے لیے آپ کے رب کی طرف سے نشان زدہ ہیں۔

34۔ یہ کنکر نشان زدہ تھے کہ کون سا کنکر کس مجرم کو ہلاک کرے گا۔

فَاَخۡرَجۡنَا مَنۡ کَانَ فِیۡہَا مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿ۚ۳۵﴾

۳۵۔ پس وہاں موجود مومنین کو ہم نے نکال لیا۔

فَمَا وَجَدۡنَا فِیۡہَا غَیۡرَ بَیۡتٍ مِّنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿ۚ۳۶﴾

۳۶۔ وہاں ہم نے ایک گھر کے علاوہ مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا۔

36۔ پوری قوم میں صرف ایک گھر مسلمان تھا اور وہ حضرت لوط علیہ السلام کا گھر تھا۔ باقی سارا علاقہ کفر اور فسق و فجور میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس ایک گھر میں بھی ان کی اہلیہ مسلمان نہ تھی۔ جس شہر میں صرف چند افراد مومن ہوں، ان کو بھی وہاں سے نکلنا پڑے، اس شہر کو تباہ ہونا چاہیے۔

وَ تَرَکۡنَا فِیۡہَاۤ اٰیَۃً لِّلَّذِیۡنَ یَخَافُوۡنَ الۡعَذَابَ الۡاَلِیۡمَ ﴿ؕ۳۷﴾

۳۷۔ اور دردناک عذاب سے ڈرنے والوں کے لیے ہم نے وہاں ایک نشانی چھوڑ دی۔

37۔ ممکن ہے اس نشانی سے مراد بحیرﮤ مردار ہو۔ یعنی قوم لوط کا شہر اس جگہ آباد رہا ہو اور کسی زلزلے کی وجہ سے دھنس کر اس جگہ بحیرہ مردار کا پانی پھیل گیا ہو۔ 2001ء میں بحیرہ مردار دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جیسے جیسے اس علاقے سے نزدیک ہوتا جاتا ہے، زندگی کے آثار کم نظر آنے لگتے ہیں۔ چنانچہ خود بحیرہ مردار کو اسی لیے مردار کہتے ہیں کہ اس میں آبی حیات ناپید ہے۔

وَ فِیۡ مُوۡسٰۤی اِذۡ اَرۡسَلۡنٰہُ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ بِسُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ﴿۳۸﴾

۳۸۔ اور موسیٰ (کے قصے) میں بھی (نشانی ہے) جب ہم نے انہیں واضح دلیل کے ساتھ فرعون کی طرف بھیجا۔

فَتَوَلّٰی بِرُکۡنِہٖ وَ قَالَ سٰحِرٌ اَوۡ مَجۡنُوۡنٌ﴿۳۹﴾

۳۹۔ تو اس نے اپنی طاقت کے بھروسے پر منہ موڑ لیا اور بولا: جادوگر یا دیوانہ ہے۔

فَاَخَذۡنٰہُ وَ جُنُوۡدَہٗ فَنَبَذۡنٰہُمۡ فِی الۡیَمِّ وَ ہُوَ مُلِیۡمٌ ﴿ؕ۴۰﴾

۴۰۔ چنانچہ ہم نے اسے اور اس کے لشکر کو گرفت میں لے لیا اور انہیں دریا میں پھینک دیا اور وہ لائق ملامت تھا۔