وَ فِیۡ عَادٍ اِذۡ اَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمُ الرِّیۡحَ الۡعَقِیۡمَ ﴿ۚ۴۱﴾

۴۱۔ اور عاد میں بھی (نشانی ہے) جب ہم نے ان پر نامبارک آندھی بھیجی۔

مَا تَذَرُ مِنۡ شَیۡءٍ اَتَتۡ عَلَیۡہِ اِلَّا جَعَلَتۡہُ کَالرَّمِیۡمِ ﴿ؕ۴۲﴾

۴۲۔ وہ جس چیز پر گرتی تھی اسے بوسیدہ کر کے چھوڑ دیتی تھی۔

وَ فِیۡ ثَمُوۡدَ اِذۡ قِیۡلَ لَہُمۡ تَمَتَّعُوۡا حَتّٰی حِیۡنٍ﴿۴۳﴾

۴۳۔ اور ثمود میں بھی (نشانی ہے) جب ان سے کہا گیا: ایک وقت معین تک زندگی کا لطف اٹھا لو ۔

فَعَتَوۡا عَنۡ اَمۡرِ رَبِّہِمۡ فَاَخَذَتۡہُمُ الصّٰعِقَۃُ وَ ہُمۡ یَنۡظُرُوۡنَ﴿۴۴﴾

۴۴۔ مگر انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی تو انہیں کڑک نے گرفت میں لے لیا اور وہ دیکھتے رہ گئے۔

فَمَا اسۡتَطَاعُوۡا مِنۡ قِیَامٍ وَّ مَا کَانُوۡا مُنۡتَصِرِیۡنَ ﴿ۙ۴۵﴾

۴۵۔ پھر وہ اٹھ بھی نہ سکے اور نہ ہی وہ بدلہ لے سکے۔

وَ قَوۡمَ نُوۡحٍ مِّنۡ قَبۡلُ ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا قَوۡمًا فٰسِقِیۡنَ﴿٪۴۶﴾

۴۶۔ اور اس سے پہلے نوح کی قوم (بھی ایک نشان عبرت) ہے، یقینا وہ فاسق لوگ تھے۔

وَ السَّمَآءَ بَنَیۡنٰہَا بِاَیۡىدٍ وَّ اِنَّا لَمُوۡسِعُوۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔ اور آسمان کو ہم نے قوت سے بنایا اور ہم ہی وسعت دینے والے ہیں۔

47۔ بِاَیۡىدٍ: اَیۡدٍ طاقت (انرجی) کو کہتے ہیں۔ بعض مؤلفین نے اس خیال کو ترجیح دی ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ یہ فرمانا چاہتا ہے کہ ہم نے آسمان کو انرجی سے بنایا ہے۔ یعنی آسمان بنانے کا ابتدائی مٹیریل انرجی تھا۔ چنانچہ انرجی کے سمٹنے سے مادہ وجود میں آتا ہے اور مادہ کے بکھرنے سے انرجی بن جاتی ہے۔ اس طرح یہ دونوں آپس میں رشتہ دار ہیں اور لَمُوۡسِعُوۡنَ کے دوسرے معنی یہ کیے جاتے ہیں: ہم وسعت والے ہیں، یعنی ہم طاقت والے ہیں۔

کائنات کو پیدا کرکے اللہ تعالیٰ نے آرام نہیں کیا (جیسا کہ بائبل کہتی ہے) بلکہ کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ کے مطابق اس سرچشمہ فیض سے ہمیشہ فیض جاری ہے اور اللہ ایک کائنات بنا کر فارغ نہیں ہوا، بلکہ یہ کائنات بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔

وَ الۡاَرۡضَ فَرَشۡنٰہَا فَنِعۡمَ الۡمٰہِدُوۡنَ﴿۴۸﴾

۴۸۔ اور زمین کو ہم نے فرش بنایا اور ہم کیا خوب بچھانے والے ہیں۔

48۔ چنانچہ اس فرش میں ایسے عناصر ودیعت فرمائے ہیں کہ جن میں اس انسان کے لیے زندگی کے رنگ برنگ سامان موجود ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اہل قلم نے کرہ ارض کو ”مہربان ماں“ کا نام دیا ہے جس کی مامتا کی وجہ سے ہمیں زندگی کی تمام تر سہولیات میسر ہیں۔

وَ مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ خَلَقۡنَا زَوۡجَیۡنِ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ﴿۴۹﴾

۴۹۔ اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں، شاید کہ تم نصیحت حاصل کرو۔

49۔ پہلے بھی ذکر ہوا، ہر چیز زوجیت کے ایک جامع نظام میں موجود ہے۔ قدیم فلاسفہ کہتے تھے: کل شیء موجود مزدوج لہ مھیۃ و وجود ۔ ہر شیء ایک ازدواجی وجود کے مرہون ہے۔ ایک ماھیت، دوسرا وجود۔یعنی ماھیت اور وجود آپس میں جفت ہیں۔ آج کا انسان ہر چیز کو عناصر کے ازدواجی نظام کے مرہون سمجھتا ہے۔ یعنی ہر شیء، عناصر کی ترکیب و ازدواج کے مرہون ہے۔ اگر ان عناصر کو باہمی ارتباط چھوڑنے پر مجبور کیا جائے تو تباہی پھیل جاتی ہے۔

فَفِرُّوۡۤا اِلَی اللّٰہِ ؕ اِنِّیۡ لَکُمۡ مِّنۡہُ نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ۚ۵۰﴾

۵۰۔ پس تم اللہ کی طرف بھاگو، بتحقیق میں اللہ کی طرف سے تمہیں صریح تنبیہ کرنے والا ہوں۔