وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ اَفَلَا تُبۡصِرُوۡنَ﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور خود تمہاری ذات میں بھی، تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو ؟

20۔21 یہ کرﮤ ارض ایسی فضا میں مصروف گردش ہے جو حیات اور زندگی کے لیے نہایت نامساعد ہے۔ اس نامساعد فضا میں زمین کو زندگی کے قابل بنانے میں سینکڑوں عوامل کے باہمی ربط کو بڑا دخل ہے۔ ان میں اگر ایک عامل مفقود ہو تو یہ کرہ، زندگی کے قابل نہیں رہ سکتا۔ مثلاً زمین کا حجم، سورج سے فاصلہ اور گردش کی سرعت میں سے ایک چیز بھی موجودہ صورت میں نہ ہو تو اس زمین پر کوئی زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس طرح زمین کو قابل حیات بنانے میں جن چیزوں کو دخل ہے، ان سب میں اس بات پر ایک دلیل موجود ہے کہ یہ سب اندھے اتفاق کی اندھی بانٹ نہیں ہے، بلکہ ان کے پیچھے ایک باشعور ذہن کارفرما ہے۔

وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ : خود انسان کی اپنی تخلیق میں قدرت کی کتنی واضح نشانیاں موجود ہیں۔ اربوں خلیات کا ایک منظم لشکر اس انسان کو احسن تقویم کی صورت میں بنانے پر مامور ہو جاتا ہے اور جو وراثتی درس پہلے خلیے کو پڑھایا گیا ہے وہ ان سب خلیات کو یاد ہے۔ چنانچہ تقسیم کار کی بنیاد پر اس لشکر کا کچھ حصہ آنکھ، کچھ ناک، کچھ اعصاب اور کچھ دماغ وغیرہ بنانے میں مشغول ہو جاتا ہے، جو اس کائنات کا سب سے بڑا عجوبہ ہے اور قدرت کی بڑی نشانی ہے۔

وَ فِی السَّمَآءِ رِزۡقُکُمۡ وَ مَا تُوۡعَدُوۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ اور تمہاری روزی آسمان میں ہے اور وہ بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔

22۔ انسانی زندگی کے لوازم کا اکثر حصہ آسمان سے برف، بارش، دھوپ وغیرہ کی شکل میں نازل ہوتا ہے اور حکم خدا بھی آسمان سے ہی نازل ہوتا ہے۔

فَوَ رَبِّ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ اِنَّہٗ لَحَقٌّ مِّثۡلَ مَاۤ اَنَّکُمۡ تَنۡطِقُوۡنَ﴿٪۲۳﴾

۲۳۔ پس آسمان اور زمین کے رب کی قسم! یقینا وہ اسی طرح برحق ہے جس طرح تم باتیں کر رہے ہو۔

ہَلۡ اَتٰىکَ حَدِیۡثُ ضَیۡفِ اِبۡرٰہِیۡمَ الۡمُکۡرَمِیۡنَ ﴿ۘ۲۴﴾

۲۴۔ کیا آپ کے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی حکایت پہنچی ہے؟

اِذۡ دَخَلُوۡا عَلَیۡہِ فَقَالُوۡا سَلٰمًا ؕ قَالَ سَلٰمٌ ۚ قَوۡمٌ مُّنۡکَرُوۡنَ ﴿ۚ۲۵﴾

۲۵۔ جب وہ ان کے ہاں آئے تو کہنے لگے: سلام ہو! ابراہیم نے کہا: سلام ہو! ناآشنا لوگ (معلوم ہوتے ہو)۔

فَرَاغَ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ فَجَآءَ بِعِجۡلٍ سَمِیۡنٍ ﴿ۙ۲۶﴾

۲۶۔ پھر وہ خاموشی سے اپنے گھر والوں کے پاس گئے اور ایک موٹا بچھڑا لے آئے۔

فَقَرَّبَہٗۤ اِلَیۡہِمۡ قَالَ اَلَا تَاۡکُلُوۡنَ ﴿۫۲۷﴾

۲۷۔ پھر اسے ان کے سامنے رکھا، کہا: آپ کھاتے کیوں نہیں؟

27۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ واقعہ اس سے پہلے بھی کئی بار گزر چکا ہے۔

فَاَوۡجَسَ مِنۡہُمۡ خِیۡفَۃً ؕ قَالُوۡا لَا تَخَفۡ ؕ وَ بَشَّرُوۡہُ بِغُلٰمٍ عَلِیۡمٍ﴿۲۸﴾

۲۸۔ پھر ابراہیم نے ان سے خوف محسوس کیا، کہنے لگے: خوف نہ کیجیے اور انہیں ایک دانا لڑ کے کی بشارت دی۔

فَاَقۡبَلَتِ امۡرَاَتُہٗ فِیۡ صَرَّۃٍ فَصَکَّتۡ وَجۡہَہَا وَ قَالَتۡ عَجُوۡزٌ عَقِیۡمٌ﴿۲۹﴾

۲۹۔ تو ان کی زوجہ چلاتی ہوئی آئیں اور اپنا منہ پیٹنے لگیں اور بولیں: (میں تو) ایک بڑھیا (اور ساتھ) بانجھ (بھی ہوں)۔

29۔ صَرَّۃٍ چیخ و پکار کو کہتے ہیں۔ فَصَکَّتۡ کے معنی پیٹنے کے ہیں۔ دوسرے معنی لپیٹنے کے ہیں۔ یعنی اس نے اپنا ہاتھ منہ پر لپیٹ لیا۔ روایت ہے کہ حضرت سارہ کی عمر اس وقت نوے سال تھی اور بانجھ تھیں۔ اس سے پہلے اولاد نہیں ہوئی تھی۔ ممکن ہے تعجب اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اپنا ہاتھ منہ پر لپیٹ لیا ہو۔

قَالُوۡا کَذٰلِکِ ۙ قَالَ رَبُّکِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡحَکِیۡمُ الۡعَلِیۡمُ﴿۳۰﴾

۳۰۔ انہوں نے کہا: تمہارے رب نے اسی طرح فرمایا ہے، وہ یقینا حکمت والا، خوب جاننے والا ہے۔