آیات 31 - 34
 

قَالَ فَمَا خَطۡبُکُمۡ اَیُّہَا الۡمُرۡسَلُوۡنَ﴿۳۱﴾

۳۱۔ ابراہیم نے کہا: اے اللہ کے بھیجے ہوئے (فرشتو) آپ کی (اصل) مہم کیا ہے؟

قَالُوۡۤا اِنَّاۤ اُرۡسِلۡنَاۤ اِلٰی قَوۡمٍ مُّجۡرِمِیۡنَ ﴿ۙ۳۲﴾

۳۲۔ انہوں نے کہا: ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں،

لِنُرۡسِلَ عَلَیۡہِمۡ حِجَارَۃً مِّنۡ طِیۡنٍ ﴿ۙ۳۳﴾

۳۳۔تاکہ ہم ان پر مٹی کے کنکر برسائیں،

مُّسَوَّمَۃً عِنۡدَ رَبِّکَ لِلۡمُسۡرِفِیۡنَ﴿۳۴﴾

۳۴۔ جو حد سے تجاوز کرنے والوں کے لیے آپ کے رب کی طرف سے نشان زدہ ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرشتوں سے پوچھا کہ آپ لوگ کس مہم کے لیے بھیجے گئے ہیں؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام سمجھ گئے تھے ان فرشتوں کی مہم صرف اولاد کی خوشخبری دینا نہیں ہے ورنہ خوشخبری کے بعد یہ تصور ممکن تھا کہ ان کی مہم یہی ہے۔

۲۔ فرشتوں نے جواب میں کہا: ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ مجرم قوم سے مراد قوم لوط ہے جس نے جرم کے ارتکاب میں رسوخ پیدا کیا تھا۔

۳۔ فرشتوں نے کہا: ہم اس قوم پر پختہ مٹی کے پتھر برسائیں گے۔ اس پتھر کو سجیل بھی کہتے ہیں۔

۴۔ مُّسَوَّمَۃً: یہ پتھر نشان زدہ ہیں کون سا پتھر کس مجرم کو ہلاک کرے گا چونکہ یہ عذاب کے پتھر ہیں۔ یہ نشانی کس قسم کی تھی، تفصیل معلوم نہیں ہے۔

۵۔ عِنۡدَ رَبِّکَ: یہ نشانی من عند االلہ اپنی قدرت قاہرہ کی نشانی تھی؟ والعلم عند اللہ ۔

۶۔ لِلۡمُسۡرِفِیۡنَ: ان لوگوں کے خلاف جو فسق و فجور اور جرم کے ارتکاب میں تمام حدود پھلانگ چکے تھے۔


آیات 31 - 34