آیات 38 - 39
 

وَ فِیۡ مُوۡسٰۤی اِذۡ اَرۡسَلۡنٰہُ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ بِسُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ﴿۳۸﴾

۳۸۔ اور موسیٰ (کے قصے) میں بھی (نشانی ہے) جب ہم نے انہیں واضح دلیل کے ساتھ فرعون کی طرف بھیجا۔

فَتَوَلّٰی بِرُکۡنِہٖ وَ قَالَ سٰحِرٌ اَوۡ مَجۡنُوۡنٌ﴿۳۹﴾

۳۹۔ تو اس نے اپنی طاقت کے بھروسے پر منہ موڑ لیا اور بولا: جادوگر یا دیوانہ ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حیات میں بھی نشانیاں ہیں کہ ہم نے انہیں واضح دلیل اور معجزات دے کر بھیجا تھا۔

۲۔ فَتَوَلّٰی بِرُکۡنِہٖ:الرکن ستون کو کہتے ہیں۔ طاقت و قوت کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اعتنا میں نہیں لایا۔ بِرُکۡنِہٖ اپنی طاقت کے بل بوتے پر فرعون اس زمانے کی بڑی طاقت کا مالک تھا۔ جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک کمزور قوم کے فرد تھے۔ وہ موسیٰ علیہ السلام پر ساحر ہونے کا الزام عائد کرتا تھا لیکن ساتھ مجنون بھی کہتا تھا کہ یہ جادوگر ہونے کے ساتھ دیوانہ بھی ہے جو نامعقول باتیں کرتا ہے ورنہ عام طور ساحر ہوشیار ہوتا ہے، دیوانہ نہیں ہوتا۔


آیات 38 - 39