ذٰلِکَ اَنۡ لَّمۡ یَکُنۡ رَّبُّکَ مُہۡلِکَ الۡقُرٰی بِظُلۡمٍ وَّ اَہۡلُہَا غٰفِلُوۡنَ﴿۱۳۱﴾

۱۳۱۔ وہ اس لیے کہ آپ کا رب بستیوں کو ظلم سے اس حال میں تباہ نہیں کرتا کہ اس کے باشندے بے خبر ہوں۔

131۔ ہم نے پیغمبروں کو اس لیے بھیجا کہ حجت تمام ہونے سے پہلے بے خبری میں لوگوں پر عذاب نازل کرنا عدل خداوندی کے خلاف ہے۔

وَ لِکُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوۡا ؕ وَ مَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۳۲﴾

۱۳۲۔اور ہر شخص کے لیے اس کے اعمال کے مطابق درجات ہوں گے اور آپ کا رب لوگوں کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔

132۔ اعمال کی کیفیت اور نوعیت میں فرق ہے اور جن حالات میں اعمال بجا لائے جاتے ہیں ان میں بھی فرق ہے۔ حدیث میں آیا ہے: افضل الاعمال احمزھا ۔ (مفتاح الفلاح ص 45) بہترین اعمال وہ ہیں جو زیادہ مشقت سے بجا لائے جائیں۔

وَ رَبُّکَ الۡغَنِیُّ ذُو الرَّحۡمَۃِ ؕ اِنۡ یَّشَاۡ یُذۡہِبۡکُمۡ وَ یَسۡتَخۡلِفۡ مِنۡۢ بَعۡدِکُمۡ مَّا یَشَآءُ کَمَاۤ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنۡ ذُرِّیَّۃِ قَوۡمٍ اٰخَرِیۡنَ﴿۱۳۳﴾ؕ

۱۳۳۔ اور آپ کا رب بے نیاز ہے، رحمت کا مالک ہے، اگر وہ چاہے تو تمہیں ختم کر کے تمہاری جگہ جسے چاہے جانشین بنا دے جیسا کہ خود تمہیں دوسری قوم کی نسل سے پیدا کیا ہے۔

133۔اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے اور رحمت کا مالک ہے، لہٰذا کسی پر ظلم و زیادتی وہ کرے گا جو ضرورت مند اور محتاج ہو یا بلا ضرورت بھی ظلم صادر ہو سکتا ہے اگر اس کے پاس رحم کا کوئی شائبہ نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ایک طرف تو عالمین سے بے نیاز ہے اسے کسی چیز کی ضرورت ہے، نہ کسی سے کوئی خوف اور دوسری طرف اللہ رحمت کا مالک ہے۔ حدیث کے مطابق سَبَقَتْ رحمتُہٗ غَضَبہٗ اس کی رحمت تو غضب سے پہلے کارفرما ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ اپنی بے نیازی کے تحت تم مشرکین کو ختم کر کے تمہاری جگہ صالح نسلوں کو پیدا کر سکتا ہے اور ان پر اپنی رحمتیں نازل کر سکتا ہے۔

اِنَّ مَا تُوۡعَدُوۡنَ لَاٰتٍ ۙ وَّ مَاۤ اَنۡتُمۡ بِمُعۡجِزِیۡنَ﴿۱۳۴﴾

۱۳۴۔ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے بیشک وہ واقع ہونے ہی والا ہے اور تم (اللہ کو) مغلوب نہیں کر سکتے۔

قُلۡ یٰقَوۡمِ اعۡمَلُوۡا عَلٰی مَکَانَتِکُمۡ اِنِّیۡ عَامِلٌ ۚ فَسَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ۙ مَنۡ تَکُوۡنُ لَہٗ عَاقِبَۃُ الدَّارِ ؕ اِنَّہٗ لَا یُفۡلِحُ الظّٰلِمُوۡنَ﴿۱۳۵﴾

۱۳۵۔کہدیجئے: اے میری قوم! تم اپنی جگہ عمل کرتے جاؤ میں بھی عمل کرتا ہوں، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس کا انجام کار اچھا ہوتا ہے (بہرحال) ظالموں کے لیے فلاح کی کوئی گنجائش نہیں۔

135۔ ناقابل ہدایت ہونے کی صورت میں اللہ کی طرف سے بڑی عقوبت یہ ہے کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے: اعۡمَلُوۡا عَلٰی مَکَانَتِکُمۡ یعنی اپنی جگہ جو کرنا چاہتے ہو کرتے جاؤ۔ اسی نکتے کو اکثر اللہ تعالیٰ ” اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے“ کی تعبیر کے ساتھ بیان فرماتا ہے۔

وَ جَعَلُوۡا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الۡحَرۡثِ وَ الۡاَنۡعَامِ نَصِیۡبًا فَقَالُوۡا ہٰذَا لِلّٰہِ بِزَعۡمِہِمۡ وَ ہٰذَا لِشُرَکَآئِنَا ۚ فَمَا کَانَ لِشُرَکَآئِہِمۡ فَلَا یَصِلُ اِلَی اللّٰہِ ۚ وَ مَا کَانَ لِلّٰہِ فَہُوَ یَصِلُ اِلٰی شُرَکَآئِہِمۡ ؕ سَآءَ مَا یَحۡکُمُوۡنَ﴿۱۳۶﴾

۱۳۶۔ اور یہ لوگ اللہ کی پیدا کردہ چیزوں مثلاً کھیتی اور چوپاؤں میں اللہ کا ایک حصہ مقرر کرتے ہیں اور اپنے زعم میں کہتے ہیں: یہ حصہ اللہ کا ہے اور یہ ہمارے شریکوں (بتوں) کا ہے تو جو (حصہ) ان کے شریکوں کے لیے (مخصوص) ہے وہ اللہ کو نہیں پہنچتا، مگر جو (حصہ) اللہ کے لیے (متعین) ہے وہ ان کے شریکوں کو پہنچ جاتا ہے، یہ لوگ کتنے برے فیصلے کرتے ہیں۔

136۔ اگرچہ مشرکین کا عقیدہ یہ ہے کہ کھیتیاں اللہ اگاتا ہے اور جانوروں کا خالق بھی وہی ہے، لیکن اس کے ساتھ وہ یہ عقیدہ بھی رکھتے تھے کہ اللہ ان بتوں کے طفیل و برکت سے ان پر اپنا فضل و کرم کرتا ہے اور اس لیے وہ اپنی نذر و نیاز کے دو حصے کرتے تھے، ایک حصہ اللہ کے نام اور دوسرا حصہ ان شریکوں (بتوں) کے نام۔ اگر کمی آتی تو اللہ کے حصے سے بتوں کے حصے کو پورا کرتے تھے، لیکن کبھی اللہ کے حصے کی کمی کو بتوں کے حصے سے پورا نہیں کرتے تھے۔ اس عمل کے پیچھے مذہبی استحصال کار فرما تھا۔کیونکہ اللہ کا حصہ غریبوں کو اور بتوں کا حصہ مجاوروں کو ملتا تھا۔

وَ کَذٰلِکَ زَیَّنَ لِکَثِیۡرٍ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ قَتۡلَ اَوۡلَادِہِمۡ شُرَکَآؤُہُمۡ لِیُرۡدُوۡہُمۡ وَ لِیَلۡبِسُوۡا عَلَیۡہِمۡ دِیۡنَہُمۡ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ مَا فَعَلُوۡہُ فَذَرۡہُمۡ وَ مَا یَفۡتَرُوۡنَ﴿۱۳۷﴾

۱۳۷۔اور اسی طرح ان کے شریکوں نے اکثر مشرکوں کی نظر میں ان ہی کے بچوں کے قتل کو ایک اچھے عمل کے طور پر جلوہ گر کیا ہے تاکہ انہیں ہلاکت میں ڈال دیں اور ان کے دین کو ان پر مشتبہ بنا دیں اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کر سکتے پس آپ انہیں بہتان تراشی میں چھوڑ دیں۔

137۔ عرب جاہلیت میں قتل اولاد کی تین صورتیں رائج تھیں: 1۔ بتوں کی خوشنودی کے لیے قتل۔ 2۔ لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا۔ 3۔ قحط و افلاس کے خوف سے قتل کرنا۔

وَ قَالُوۡا ہٰذِہٖۤ اَنۡعَامٌ وَّ حَرۡثٌ حِجۡرٌ ٭ۖ لَّا یَطۡعَمُہَاۤ اِلَّا مَنۡ نَّشَآءُ بِزَعۡمِہِمۡ وَ اَنۡعَامٌ حُرِّمَتۡ ظُہُوۡرُہَا وَ اَنۡعَامٌ لَّا یَذۡکُرُوۡنَ اسۡمَ اللّٰہِ عَلَیۡہَا افۡتِرَآءً عَلَیۡہِ ؕ سَیَجۡزِیۡہِمۡ بِمَا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ﴿۱۳۸﴾

۱۳۸۔اور یہ کہتے ہیں: یہ جانور اور کھیتی ممنوع ہیں انہیں صرف وہی کھا سکتے ہیں جنہیں ان کے زعم میں ہم کھلانا چاہیں اور کچھ جانور ایسے ہیں جن کی پیٹھ (پر سواری یا باربرداری) حرام ہے اور کچھ جانور ایسے ہیں جن پر محض اللہ پر بہتان باندھتے ہوئے اللہ کا نام نہیں لیتے، اللہ عنقریب انہیں ان کی بہتان تراشیوں کا بدلہ دے گا۔

138۔وہ جانوروں اور کھیتوں کی فصلوں کو اپنے خود ساختہ خداؤں کے نام نذر کرتے تھے اور ان نذروں کو کھانے کی اجازت ان خداؤں کے خدمت گزار مردوں کو تھی، عورتوں کو اجازت نہیں تھی۔ کچھ جانور ایسے تھے جن پر سوار ہونا حرام تھا اور بعض جانوروں پر اللہ کا نام لینا ممنوع تھا۔

وَ قَالُوۡا مَا فِیۡ بُطُوۡنِ ہٰذِہِ الۡاَنۡعَامِ خَالِصَۃٌ لِّذُکُوۡرِنَا وَ مُحَرَّمٌ عَلٰۤی اَزۡوَاجِنَا ۚ وَ اِنۡ یَّکُنۡ مَّیۡتَۃً فَہُمۡ فِیۡہِ شُرَکَآءُ ؕ سَیَجۡزِیۡہِمۡ وَصۡفَہُمۡ ؕ اِنَّہٗ حَکِیۡمٌ عَلِیۡمٌ﴿۱۳۹﴾

۱۳۹۔اور کہتے ہیں:جو (بچہ) ان جانوروں کے شکم میں ہے وہ صرف ہمارے مردوں کے لیے ہے اور ہماری بیویوں پر حرام ہے اور اگر وہ (بچہ) مرا ہوا ہو تو وہ سب اس میں شریک ہیں، اللہ ان کے اس بیان پر انہیں عنقریب سزا دے گا، یقینا وہ بڑا حکمت والا، دانا ہے۔

139۔ جاہلیت کی خود ساختہ شریعت کا ایک حکم یہ تھا کہ بعض مخصوص جانوروں کے بچے اگر زندہ پیدا ہو جاتے تو ان کا گوشت صرف مردوں پر حلال تھا اگر مردہ پیدا ہوتے تو مرد و زن سب کھا سکتے تھے۔

قَدۡ خَسِرَ الَّذِیۡنَ قَتَلُوۡۤا اَوۡلَادَہُمۡ سَفَہًۢا بِغَیۡرِ عِلۡمٍ وَّ حَرَّمُوۡا مَا رَزَقَہُمُ اللّٰہُ افۡتِرَآءً عَلَی اللّٰہِ ؕ قَدۡ ضَلُّوۡا وَ مَا کَانُوۡا مُہۡتَدِیۡنَ﴿۱۴۰﴾٪ ۞ٙ

۱۴۰۔وہ لوگ یقینا خسارے میں ہیں جنہوں نے بیوقوفی سے جہالت کی بنا پر اپنی اولاد کو قتل کیا اور اللہ نے جو رزق انہیں عطا کیا ہے اللہ پر بہتان باندھتے ہوئے اسے حرام کر دیا، بیشک یہ لوگ گمراہ ہو گئے اور ہدایت پانے والے نہ تھے۔

140۔انسان کے لیے دو چیزیں باعث زینت و تقویت ہیں یعنی مال اور اولاد۔ عرب جاہلیت کی نادانی کی انتہا دیکھیے کہ یہ لوگ اولاد کو قتل کرتے تھے اور رزق خد اکا ایک حصہ اپنے اوپر حرام کرتے تھے، اس طرح وہ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃَ کا مصداق بن گئے۔