بے نیازی اور رحمت


وَ رَبُّکَ الۡغَنِیُّ ذُو الرَّحۡمَۃِ ؕ اِنۡ یَّشَاۡ یُذۡہِبۡکُمۡ وَ یَسۡتَخۡلِفۡ مِنۡۢ بَعۡدِکُمۡ مَّا یَشَآءُ کَمَاۤ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنۡ ذُرِّیَّۃِ قَوۡمٍ اٰخَرِیۡنَ﴿۱۳۳﴾ؕ

۱۳۳۔ اور آپ کا رب بے نیاز ہے، رحمت کا مالک ہے، اگر وہ چاہے تو تمہیں ختم کر کے تمہاری جگہ جسے چاہے جانشین بنا دے جیسا کہ خود تمہیں دوسری قوم کی نسل سے پیدا کیا ہے۔

133۔اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے اور رحمت کا مالک ہے، لہٰذا کسی پر ظلم و زیادتی وہ کرے گا جو ضرورت مند اور محتاج ہو یا بلا ضرورت بھی ظلم صادر ہو سکتا ہے اگر اس کے پاس رحم کا کوئی شائبہ نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ایک طرف تو عالمین سے بے نیاز ہے اسے کسی چیز کی ضرورت ہے، نہ کسی سے کوئی خوف اور دوسری طرف اللہ رحمت کا مالک ہے۔ حدیث کے مطابق سَبَقَتْ رحمتُہٗ غَضَبہٗ اس کی رحمت تو غضب سے پہلے کارفرما ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ اپنی بے نیازی کے تحت تم مشرکین کو ختم کر کے تمہاری جگہ صالح نسلوں کو پیدا کر سکتا ہے اور ان پر اپنی رحمتیں نازل کر سکتا ہے۔