آیت 103
 

لَا تُدۡرِکُہُ الۡاَبۡصَارُ ۫ وَ ہُوَ یُدۡرِکُ الۡاَبۡصَارَ ۚ وَ ہُوَ اللَّطِیۡفُ الۡخَبِیۡرُ﴿۱۰۳﴾

۱۰۳۔ نگاہیں اسے پا نہیں سکتیں جب کہ وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے اور وہ نہایت باریک بین، بڑا باخبر ہے۔

تشریح کلمات

ادرک:

( د ر ک ) کسی چیز کی غایت کو پہنچنا، پا لینا۔ جیسے ادرک الصبی لڑکا بچپن کی آخری حد کو پہنچ گیا۔ یعنی بالغ ہو گیا۔

اللَّطِیۡفُ:

( ل ط ف ) لطائف سے وہ باتیں مراد لی جاتی ہیں جن کا ادراک انسانی حواس نہ کر سکتے ہوں۔

الۡاَبۡصَارَ:

( ب ص ر ) مفرد بصر کے معنی آنکھ کے ہیں۔

تفسیر آیات

حواس ظاہری و باطنی میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا ادراک ہوتا ہے۔ مثلاً عقل کا ادراک اور ہے اور نظر کا ادراک اور ہے۔ اس آیت میں فرمایا کہ نگاہیں اللہ کا ادراک نہیں کر سکتیں تو معنی یہ ہوئے کہ اللہ کا وجود ایسا نہیں ہے جو نگاہوں کے حس و ادراک کے دائرے میں آ جائے بلکہ ایسا خیال کرنا شان خداوندی کے خلاف ایسی گستاخی ہے، جو فوری سزا کی مستحق ہے۔ چنانچہ فرمایا:

یَسۡـَٔلُکَ اَہۡلُ الۡکِتٰبِ اَنۡ تُنَزِّلَ عَلَیۡہِمۡ کِتٰبًا مِّنَ السَّمَآءِ فَقَدۡ سَاَلُوۡا مُوۡسٰۤی اَکۡبَرَ مِنۡ ذٰلِکَ فَقَالُوۡۤا اَرِنَا اللّٰہَ جَہۡرَۃً فَاَخَذَتۡہُمُ الصّٰعِقَۃُ بِظُلۡمِہِمۡ ۔۔۔۔۔ (۴ نساء: ۱۵۳)

اہل کتاب آپ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ آپ ان پر آسمان سے ایک کتاب اتار لائیں جب کہ یہ لوگ اس سے بڑا مطالبہ موسیٰ سے کر چکے ہیں، چنانچہ انہوں نے کہا: ہمیں علانیہ طور پر اللہ دکھا دو، ان کی اسی زیادتی کی وجہ سے انہیں بجلی نے آ لیا۔

اللہ کے قابل روئیت ہونے اور نگاہوں کی محدودیت میں آنے کے غیر ممکن ہونے پر اسی آیت میں ایک لطیف اشارہ موجود ہے اور وہ ہے: وَ ہُوَ اللَّطِیۡفُ الۡخَبِیۡرُ ۔ لطیف اس وجود کو کہتے ہیں جس کا ادراک انسانی حواس نہ کر سکتے ہوں۔

راغب اصفہانی اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:

اکثر علماء نے ابصار کے معنی آنکھ کے کیے ہیں۔ بعض نے کہا: یہ ظاہری آنکھ کے علاوہ اوہام و افہام کی نفی کی طرف بھی اشارہ ہو سکتاہے۔ جیسا کہ امیرالمؤمنین کا قول ہے: التوحید ان لا تتوھمہ ۔ حقیقتاً توحید تو یہ ہے جو انسان کے واہمہ میں بھی نہ آ سکے اور فرمایا: جو کچھ انسانی واہمہ ادراک کرتا ہے وہ توحید نہیں ہے۔

واضح ہے کہ اللہ کی ذات غیر محدود اور لامتناہی ہے اور نظر میں آنے کا مطلب محدودیت میں آنا ہے اور محدود خدا نہیں ہو سکتا کیونکہ محدود ہونے کی صورت میں خدا متعدد ہو سکتے ہیں، مکان کا محتاج ہوتا ہے، رنگ و کیفیت کا محتاج ہوتا ہے وغیرہ، جو شان الٰہی کے خلاف ہے۔

روایت ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اسماعیل بن فضل نے پوچھا کہ کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نظر آئے گا ؟ تو آپؑ نے فرمایا:

سبحان اللّٰہ تعالٰی عن ذلک علوا کبیراً یا ابن الفضل ان الابصار لا تدرک الا ما لہ لون و کیفیۃ و اللّٰہ خالق الألوان و الکیفیۃ ۔ (بحار الانوار ۴: ۳۱۔ الامالی للصدوق ص ۴۱۰ مجلس ۶۴)

اللہ تعالیٰ اس بات سے پاک، بلند و بالا ہے۔ اے ابن فضل آنکھیں صرف ان چیزوں کو دیکھ سکتی ہیں جو رنگ اور کیفیت پر مشتمل ہوں۔ اللہ تعالیٰ تو رنگوں اور کیفیت کا خالق ہے ۔

اللہ تعالیٰ رنگوں اور کیفیت کا خالق ہے۔ یہ چیزیں خود اللہ تعالیٰ کے اندر نہیں پائی جا سکتیں۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹے اور بیٹیاں ثابت کرنے والوں سے یہی فرمایا کہ اللہ ان سب کا خالق ہے۔ اَنّٰی یَکُوۡنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَمۡ تَکُنۡ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ ؕ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ ۔۔۔۔ پس جن چیزوں کو اللہ نے خلق کیا ہے، وہ اللہ میں نہیں پائی جا سکتیں۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: مَا وَحَّدَہُ مَنْ کَیَّفَہُ ۔۔۔ (نہج البلاغۃ خطبہ ۱۸۶) جو اللہ کو کسی کیفیت میں لائے، اس نے توحید کا اقرار نہیں کیا۔ جن چیزوں کو اللہ نے پیدا کیا ہے، ان چیزوں کا خود اللہ میں پایا جانا ناممکن ہونے کے سلسلے میں اسی خطبے میں آگے فرماتے ہیں:

وَکَیْفَ یَجْرِیْ عَلَیْہِ مَا ھُوَ أَجْرَاہُ وَ یَعُودُ فِیہِ مَا ھُوَ أَبْدَاہُ وَ یَحْدُثُ فِیہِ مَا ھُوَ اَحْدَثَہُ اِذاً لَتَفَاوَتَتْ ذَاتُہُ وَلَتَجَزَّ أَ کُنْھُہُ وَ لاَمْتَنَعَ مِنَ الْاَزَلِ مَعْنَاہُ وَ لَکَانَ لَہُ وَرَائٌ اِذْ وُجِدَ لَہُ اَمَامٌ ۔۔۔۔ (نہج البلاغۃ خطبہ ۱۸۶)

بھلا جو چیز اس نے مخلوقات پر طاری کی ہو، وہ اس پر کیونکر طاری ہو سکتی ہے اور جو چیز پہلے پہل اسی نے پیدا کی ہے، وہ اس کی طرف عائد کیونکر ہو سکتی ہے اور جس چیز کو اس نے پیدا کیا ہو، وہ اس میں کیونکر پیدا ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہو تو اس کی ذات تغیر پذیر قرار پائے گی اور اس کی ہستی قابل تجزیہ ٹھہرے گی اور اس کی حقیقت ہمیشگی و دوام سے علیحدہ ہو جائے گی۔ اگر اس کے لیے سامنے کی جہت ہوتی تو پیچھے کی سمت بھی ہوتی۔۔۔۔

اہم نکات

۱۔ اللہ نگاہوں کے رنگ و کیفیت میں نہیں، عقل و ضمیر میں نظرآتا ہے۔

۲۔ اللہ تعالیٰ کی لطافت مادی آنکھوں کے مشاہدہ سے بالاتر ہے۔


آیت 103