الَّذِیۡنَ یُکَذِّبُوۡنَ بِیَوۡمِ الدِّیۡنِ ﴿ؕ۱۱﴾

۱۱۔ جو روز جزا کو جھٹلاتے ہیں ۔

وَ مَا یُکَذِّبُ بِہٖۤ اِلَّا کُلُّ مُعۡتَدٍ اَثِیۡمٍ ﴿ۙ۱۲﴾

۱۲۔ اور اس روز کو تجاوزکار، گناہگار کے سوا کوئی نہیں جھٹلاتا۔

12۔ جرائم کے ارتکاب میں حد سے تجاوز کرنے والے اور گناہگار ہی روز قیامت قائم ہونے والی عدل و انصاف پر مبنی عدالت سے گریز کرتے ہیں اور اپنے آپ کو جھوٹی تسلی دینے کے لیے قیامت کی نشاندہی پر مبنی آیات کا تمسخر کرتے ہیں۔

اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِ اٰیٰتُنَا قَالَ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿ؕ۱۳﴾

۱۳۔ جب اسے ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ کہتا ہے: یہ تو قصہ ہائے پارینہ ہیں۔

کَلَّا بَلۡ ٜ رَانَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ مَّا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ ہرگز نہیں! بلکہ ان کے اعمال کی وجہ سے ان کے دل زنگ آلود ہو چکے ہیں۔

14۔ رَانَ : رین سے ہے۔ یعنی ان کے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے، جس کی وجہ سے قرآنی روشنی ان پر اثر نہیں کرتی، بلکہ گناہ و ثواب کے کاموں میں تمیز بھی نہیں کر سکتے۔ حدیث میں آیا ہے: جب انسان گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ دھبہ لگ جاتا ہے۔ اگر توبہ کی، داغ دھل جاتا ہے، اگر استغفار کی تو صاف ہو جاتا ہے۔ اگر گناہ کا سلسلہ جاری رکھا تو رنگ میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ یہ وہی دین ہے، جو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے۔ (التوحید شیخ صدوق ص 465۔ سنن ترمذی کتاب التفسیر حدیث 3257)

کَلَّاۤ اِنَّہُمۡ عَنۡ رَّبِّہِمۡ یَوۡمَئِذٍ لَّمَحۡجُوۡبُوۡنَ ﴿ؕ۱۵﴾

۱۵۔ ہرگز نہیں! اس روز یہ لوگ یقینا اپنے رب (کی رحمت) سے اوٹ میں ہوں گے۔

15۔ ایک اہل قلم کا یہ ترجمہ: ”اس روز یہ اپنے رب کی دید سے محروم رکھے جائیں گے“، قرآنی نہیں مسلکی ترجمہ ہے۔ چونکہ غیر امامیہ کا مؤقف یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ کا دیدار ہو جائے گا، مگر یہ کہ دید سے مراد دیدِ قلب ہو۔

ثُمَّ اِنَّہُمۡ لَصَالُوا الۡجَحِیۡمِ ﴿ؕ۱۶﴾

۱۶۔ پھر وہ یقینا جہنم میں جھلسیں گے۔

ثُمَّ یُقَالُ ہٰذَا الَّذِیۡ کُنۡتُمۡ بِہٖ تُکَذِّبُوۡنَ ﴿ؕ۱۷﴾

۱۷۔ پھر کہا جائے گا: یہ وہی ہے جسے تم جھٹلاتے تھے۔

کَلَّاۤ اِنَّ کِتٰبَ الۡاَبۡرَارِ لَفِیۡ عِلِّیِّیۡنَ ﴿ؕ۱۸﴾

۱۸۔ (یہ جھوٹ) ہرگز نہیں! نیکی پر فائز لوگوں کا نامہ اعمال یقینا علیین میں ہے۔

18۔ الۡاَبۡرَارِ : ان ہستیوں کو کہتے ہیں جو نیکی کے اعلی ترین مرتبہ پر فائز ہوں۔ الۡمُقَرَّبُوۡنَ ان سے ایک درجہ آگے ہیں۔ سورہ واقعہ میں بیان ہوا وہ سابقون ہیں: وَ السّٰبِقُوۡنَ السّٰبِقُوۡنَ ﴿ۚ﴾ اُولٰٓئِکَ الۡمُقَرَّبُوۡنَ ، جن کی تعداد اس امت میں کم ہے۔

وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا عِلِّیُّوۡنَ ﴿ؕ۱۹﴾

۱۹۔ اور آپ کو کس چیز نے بتایا علیین کیا ہے ؟

کِتٰبٌ مَّرۡقُوۡمٌ ﴿ۙ۲۰﴾

۲۰۔ یہ ایک لکھی ہوئی کتاب ہے۔

20۔ جس طرح بدکاروں کے نامہ اعمال کو سِجِّیۡنٍ کا نام دیا گیا ہے، اسی طرح نیک آدمیوں کے نامہ اعمال کو عِلِّیُّوۡنَ کا نام دیا گیا ہے۔ جس طرح ان کا درجہ عِلِّیِّیۡنَ میں ہے، ان کا نامہ اعمال بھی بلند مقام پر ہے۔ ایک نظریہ کے مطابق تجسم اعمال کے تحت علیّون سے مراد بہشت برین ہے۔ یعنی ابرار کے اعمال نے مجسم ہو کر عِلِّیُّوۡنَ کی شکل اختیار کی ہے (انرجی مادے میں بدل کر)۔ یہ لکھی ہوئی کتاب ضرور ہے، مگر لکیروں سے نہیں مقرب بندوں کے مشاہدے کی ایک عملی کتاب ہے۔