آیت 14
 

کَلَّا بَلۡ ٜ رَانَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ مَّا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ ہرگز نہیں! بلکہ ان کے اعمال کی وجہ سے ان کے دل زنگ آلود ہو چکے ہیں۔

تشریح کلمات

رَانَ:

( ر ی ن ) زنگ کو کہتے ہیں جو کسی صاف چیز پر لگ جائے۔

تفسیر آیات

۱۔ کَلَّا: ایسا ہرگز نہیں کہ قرآنی آیات داستان ہائے پارینہ ہوں

۲۔ بَلۡ ٜ رَانَ: بلکہ ان کے دل زنگ آلود ہو گئے ہیں اس لیے ان لوگوں کے دلوں پر حق کا اثر نہیں ہوتا۔ صاحب المیزان نے اس آیت سے چند ایک نکات اخذ کئے ہیں:

i۔برے اعمال کی وجہ سے نفس انسانی پر کچھ نقوش ثبت ہوتے ہیں۔

ii۔ یہ نقوش، نفس کے حق سمجھنے میں مانع ہوتے ہیں۔

iii۔ نفس اپنی ذاتی طبیعت میں صاف و شفاف ہوتا ہے پھر زنگ لگتا ہے۔

حدیث میں آیا ہے:

جب انسان گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ دھبہ لگ جاتا ہے۔ اگر توبہ کی، داغ دھل جاتا ہے۔ اگر استغفار کی تو صاف ہو جاتا ہے۔ اگر گناہ کا سلسلہ جاری رکھا تو زنگ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ وہی ران زنگ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے۔ (توحید شیخ صدوق ص۴۶۵، سنن ترمذی کتاب التفسیر حدیث ۳۲۵۷)


آیت 14