یَّشۡہَدُہُ الۡمُقَرَّبُوۡنَ ﴿ؕ۲۱﴾

۲۱۔ مقرب لوگ اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

اِنَّ الۡاَبۡرَارَ لَفِیۡ نَعِیۡمٍ ﴿ۙ۲۲﴾

۲۲۔ نیکی پر فائز لوگ یقینا نعمتوں میں ہوں گے۔

عَلَی الۡاَرَآئِکِ یَنۡظُرُوۡنَ ﴿ۙ۲۳﴾

۲۳۔ مسندوں پر بیٹھے نظارہ کر رہے ہوں گے۔

تَعۡرِفُ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ نَضۡرَۃَ النَّعِیۡمِ ﴿ۚ۲۴﴾

۲۴۔ ان کے چہروں سے آپ نعمتوں کی شادابی محسوس کریں گے۔

24۔ چہروں سے نعمتوں کی شادابی اور رونق ہر دیکھنے والے کے لیے محسوس و عیاں ہو گی۔

یُسۡقَوۡنَ مِنۡ رَّحِیۡقٍ مَّخۡتُوۡمٍ ﴿ۙ۲۵﴾

۲۵۔ انہیں سربمہر خالص مشروب پلائے جائیں گے۔

خِتٰمُہٗ مِسۡکٌ ؕ وَ فِیۡ ذٰلِکَ فَلۡیَتَنَافَسِ الۡمُتَنَافِسُوۡنَ ﴿ؕ۲۶﴾

۲۶۔ جس پر مشک کی مہر لگی ہو گی اور سبقت کرنے والوں کو اس امر میں سبقت کرنی چاہیے۔

26۔ اگر کوئی عاقل کسی چیز کے حصول میں دوسروں پر بازی لے جانا چاہتا ہے تو ان نعمتوں کے حصول میں بازی لے جانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

وَ مِزَاجُہٗ مِنۡ تَسۡنِیۡمٍ ﴿ۙ۲۷﴾

۲۷۔ اس میں تسنیم (کے پانی) کی آمیزش ہو گی،

عَیۡنًا یَّشۡرَبُ بِہَا الۡمُقَرَّبُوۡنَ ﴿ؕ۲۸﴾

۲۸۔ اس چشمے کی جس سے مقرب لوگ پئیں گے،

اِنَّ الَّذِیۡنَ اَجۡرَمُوۡا کَانُوۡا مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یَضۡحَکُوۡنَ ﴿۫ۖ۲۹﴾

۲۹۔ جنہوں نے جرم کا ارتکاب کیا تھا، وہ مؤمنین کا مذاق اڑاتے تھے۔

29۔ تفسیر کبیر، کشاف اور شواہد التنزیل میں آیا ہے کہ اِنَّ الَّذِیۡنَ اَجۡرَمُوۡا سے مراد قریش کے منافقین اور الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

وَ اِذَا مَرُّوۡا بِہِمۡ یَتَغَامَزُوۡنَ ﴿۫ۖ۳۰﴾

۳۰۔ جب وہ ان کے پاس سے گزرتے تو آپس میں آنکھیں مار کر اشارہ کرتے تھے۔