کَلَّا لَا وَزَرَ ﴿ؕ۱۱﴾

۱۱۔ نہیں ! اب کوئی پناہ گاہ نہیں۔

اِلٰی رَبِّکَ یَوۡمَئِذِۣ الۡمُسۡتَقَرُّ ﴿ؕ۱۲﴾

۱۲۔ اس روز ٹھکانا تو صرف تیرے رب کے پاس ہو گا۔

یُنَبَّؤُا الۡاِنۡسَانُ یَوۡمَئِذٍۭ بِمَا قَدَّمَ وَ اَخَّرَ ﴿ؕ۱۳﴾

۱۳۔ اس دن انسان کو وہ سب کچھ بتا دیا جائے گا جو وہ آگے بھیج چکا اور پیچھے چھوڑ آیا ہو گا۔

13۔ جو کام انسان اپنی زندگی میں انجام دیتا ہے وہ آگے بھیجا جاتا ہے اور جو صدقہ جاریہ یا کوئی گناہ کا دھندا چھوڑ جاتا ہے، وہ پیچھے چھوڑنے میں آتا ہے۔ نیک عمل کا سلسلہ چھوڑ جائے تو اس کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہے گا اور گناہ کا کام چھوڑ جائے تو اس گناہ کے جرم میں مرنے کے بعد بھی شریک رہے گا۔

بَلِ الۡاِنۡسَانُ عَلٰی نَفۡسِہٖ بَصِیۡرَۃٌ ﴿ۙ۱۴﴾

۱۴۔ بلکہ انسان اپنے آپ سے خوب آگاہ ہے،

14۔ انسان اپنے اعمال سے خوب واقف ہے۔ اس کے اعضا و جوارح تک ان اعمال سے آگاہ ہیں۔ کل وہ سب گواہی دیں گے۔ حدیث میں آیا ہے: اِنَّ السَّرِیرَۃَ اِذَا صَلَحَتْ قَوِیَتِ الْعَلَانِیَۃُ ۔ (وسائل الشیعۃ 1:64۔ الکافی باب الریاء ) انسان کا باطن اگر درست ہو جائے تو ظاہر بھی مضبوط رہتا ہے۔

مَعَاذِیۡرَ : ایک قول کے مطابق معذرۃ کی نہیں معذار کی جمع ہے، جو پردے کو کہتے ہیں۔ بنابرایں ترجمہ اس طرح ہو گا : خواہ پردہ ڈالے رکھے۔

وَّ لَوۡ اَلۡقٰی مَعَاذِیۡرَہٗ ﴿ؕ۱۵﴾

۱۵۔ اور خواہ وہ اپنی معذرتیں پیش کرے۔

لَا تُحَرِّکۡ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعۡجَلَ بِہٖ ﴿ؕ۱۶﴾

۱۶۔ (اے نبی) آپ وحی کو جلدی (حفظ) کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔

اِنَّ عَلَیۡنَا جَمۡعَہٗ وَ قُرۡاٰنَہٗ ﴿ۚۖ۱۷﴾

۱۷۔ اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا یقینا ہمارے ذمے ہے۔

فَاِذَا قَرَاۡنٰہُ فَاتَّبِعۡ قُرۡاٰنَہٗ ﴿ۚ۱۸﴾

۱۸۔ پس جب ہم اسے پڑھ چکیں تو پھر آپ (بھی) اسی طرح پڑھا کریں۔

ثُمَّ اِنَّ عَلَیۡنَا بَیَانَہٗ ﴿ؕ۱۹﴾

۱۹۔ پھر اس کی وضاحت ہمارے ذمے ہے

16 تا 19۔ وحی کو حفظ، اس کی تلاوت اور اس کے مطالب کو بیان کرنا اللہ کے ذمے ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو وحی کی تشخیص میں مشکل پیش آئے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے یا کسی اور کی طرف سے، کیونکہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وحی کو ظاہری حواس سے نہیں، اپنے پورے وجود سے اخذ کرتے تھے، جس میں کسی قسم کے شک و تردد کی گنجائش نہیں ہے۔ اسی طرح اس قرآن کی حفاظت بھی اللہ کے ذمے ہے۔

کَلَّا بَلۡ تُحِبُّوۡنَ الۡعَاجِلَۃَ ﴿ۙ۲۰﴾

۲۰۔ (کیا یہ انکار اس لیے ہے کہ قیامت ناقابل فہم ہے؟) ہرگز نہیں! یہ اس لیے ہے کہ تم دنیا کو پسند کرتے ہو،