وَ تَذَرُوۡنَ الۡاٰخِرَۃَ ﴿ؕ۲۱﴾

۲۱۔ اور آخرت کو چھوڑ دیتے ہو۔

وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ ﴿ۙ۲۲﴾

۲۲۔ بہت سے چہرے اس روز شاداب ہوں گے،

اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ ﴿ۚ۲۳﴾

۲۳۔ وہ اپنے رب(کی رحمت) کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔

23۔ رب کی رحمتوں پر اپنی نگاہ مرکوز کیے ہوئے ہوں گے، ورنہ خدا کو اس طرح نہیں دیکھا جا سکتا جس طرح ہم دنیا میں کسی چیز کو جہت، جسم اور رنگ میں دیکھ سکتے ہیں۔ البتہ اس کے علاوہ کوئی روئیت مراد لی جائے، مثلاً قلبی روئیت ہو تو اس صورت میں روئیت ممکن ہو سکتی ہے۔ بعض کے نزدیک نَاظِرَۃٌ کے معنی منتظر ہونے کے ہیں، کہ صرف اللہ کی رحمت کے منتظر ہوں گے۔

وَ وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍۭ بَاسِرَۃٌ ﴿ۙ۲۴﴾

۲۴۔ اور بہت سے چہرے اس دن بگڑے ہوئے ہوں گے،

تَظُنُّ اَنۡ یُّفۡعَلَ بِہَا فَاقِرَۃٌ ﴿ؕ۲۵﴾

۲۵۔ جو گمان کریں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ معاملہ ہونے والا ہے۔

کَلَّاۤ اِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِیَ ﴿ۙ۲۶﴾

۲۶۔ (کیا تم اس دنیا میں ہمیشہ رہو گے؟) ہرگز نہیں! جب جان حلق تک پہنچ جائے گی،

وَ قِیۡلَ مَنۡ ٜ رَاقٍ ﴿ۙ۲۷﴾

۲۷۔ اور کہا جائے گا: کون ہے(بچانے والا) معالج؟

وَّ ظَنَّ اَنَّہُ الۡفِرَاقُ ﴿ۙ۲۸﴾

۲۸۔ اور وہ سمجھ جائے گا کہ اس کی جدائی کا لمحہ آگیا ہے،

وَ الۡتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ ﴿ۙ۲۹﴾

۲۹۔ اور پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی،

29۔ پنڈلی سے پنڈلی جڑ جائے گی۔ یعنی شدتِ بلا پر شدت کا اضافہ ہو گا۔ یعنی فراق دنیا اور آخرت کی ہولناکی مراد ہے۔

اِلٰی رَبِّکَ یَوۡمَئِذِۣ الۡمَسَاقُ ﴿ؕ٪۳۰﴾

۳۰۔ تو وہ آپ کے رب کی طرف چلنے کا دن ہو گا۔