آیات 16 - 19
 

لَا تُحَرِّکۡ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعۡجَلَ بِہٖ ﴿ؕ۱۶﴾

۱۶۔ (اے نبی) آپ وحی کو جلدی (حفظ) کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔

اِنَّ عَلَیۡنَا جَمۡعَہٗ وَ قُرۡاٰنَہٗ ﴿ۚۖ۱۷﴾

۱۷۔ اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا یقینا ہمارے ذمے ہے۔

فَاِذَا قَرَاۡنٰہُ فَاتَّبِعۡ قُرۡاٰنَہٗ ﴿ۚ۱۸﴾

۱۸۔ پس جب ہم اسے پڑھ چکیں تو پھر آپ (بھی) اسی طرح پڑھا کریں۔

ثُمَّ اِنَّ عَلَیۡنَا بَیَانَہٗ ﴿ؕ۱۹﴾

۱۹۔ پھر اس کی وضاحت ہمارے ذمے ہے

تفسیر آیات

قیامت کے دن مومنین اور کافروں کے احوال بیان کرتے ہوئے درمیان میں چار آیتوں پر مشتمل جملہ معترضہ آ گیا جو وحی وصول کرنے کے طریقے پر مشتمل ہے۔ اس جملہ معترضہ کو دوران وحی ہی بیان کیا جا سکتا تھا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اوائل وحی میں قرآن کو وحی کے دوران ساتھ ساتھ پڑھتے تھے کہ کوئی لفظ رہ نہ جائے۔ فرمایا:

۱۔ لَا تُحَرِّکۡ بِہٖ لِسَانَکَ: اپنی زبان کو اس غرض سے حرکت نہ دیں کہ وحی مکمل ہونے سے پہلے عجلت میں قرآن کو حفظ کر لیا جائے بلکہ وحی مکمل ہونے کے بعد قرآن کو پڑھا کریں۔ جیسے فرمایا:

وَ لَا تَعۡجَلۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یُّقۡضٰۤی اِلَیۡکَ وَحۡیُہٗ۔۔۔۔ (۲۰ طٰہ: ۱۱۴)

اور آپ پر ہونے والی اس کی وحی کی تکمیل سے پہلے قرآن پڑھنے میں عجلت نہ کریں۔

۲۔ اِنَّ عَلَیۡنَا جَمۡعَہٗ: یہ بات ہمارے ذمے ہے کہ قرآن کو ذہن سے منتشر ہونے سے بچا کر صفحۂ وجود میں مجتمع کر کے محفوظ کیا جائے جیسے فرمایا:

سَنُقۡرِئُکَ فَلَا تَنۡسٰۤی ﴿۶﴾ (۸۷ اعلی: ۶)

(عنقریب) ہم آپ کو پڑھائیں گے پھر آپ نہیں بھولیں گے۔

چونکہ قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حواس کے ذریعہ نہیں پڑھایا جاتا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وجود میں اتارا جاتا ہے جس میں فراموشی کے لیے گنجائش نہیں ہے۔

۳۔ وَ قُرۡاٰنَہٗ: اور قرآن آپ کی زبان پر جاری کرنا بھی ہمارے ذمے ہے۔ لہٰذا وحی وصول کرنے کے بعد آپ کے قلب میں قرآن محفوظ کرنا، پھر اسے آپ کی زبان پر جاری کرنا ہمارے ذمے ہے۔ محفوظ کرنے میں خلل آنے کا امکان ہے اور نہ پڑھنے میں کسی قسم کا خلل ممکن ہے۔ قُرْاٰنَہٗ میں قرآن بمعنی مصدر ہے۔ یعنی اس کا پڑھانا ہمارے ذمے ہے۔

۴۔ فَاِذَا قَرَاۡنٰہُ: جب ہم پڑھ چکیں یعنی ہماری طرف سے جبرئیل وحی پڑھ چکیں تو اس کے بعد آپ اسی طرح پڑھیں۔ جبرئیل کا پڑھنا اللہ تعالیٰ نے اپنا پڑھنا قرار دیا ہے چونکہ فرشتوں کا عمل خود اللہ تعالیٰ کا عمل ہے، فرشتے اپنے اختیار و انتخاب کے مالک نہیں ہیں، امر خدا کے نفاذ کے لیے آلہ کار کی مانند ہیں جیسے بندوں کو رزق دینے میں پانی کا کردار ہے۔ اسی قسم کا کردار فرشتوں کا ہے۔

۵۔ فَاتَّبِعۡ قُرۡاٰنَہٗ: یہاں بھی قرآن بمعنی مصدر ہے۔ یعنی جب ہم اس قرآن کو بذریعہ وحی پڑھ چکیں تو اس کے بعد آپ پیروی کریں، قرآن کو اسی طرح پڑھنے میں جس طرح آپ پر وحی ہوئی ہے۔ فَاتَّبِعۡ امر ہے کہ قرآن کو اسی طرح پڑھو۔ یہ حکم اس صورت میں درست ہے ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے اسی طرح پڑھنا ممکن ہو یعنی فراموشی کا امکان نہ ہو۔ اس فقرے سے بھی فَلَا تَنۡسٰۤی عدم فراموشی ثابت ہو جاتی ہے۔

۶۔ ثُمَّ اِنَّ عَلَیۡنَا بَیَانَہٗ: پھر اس قرآن کی وضاحت ہمارے ذمے ہے۔ اس آیت سے یہ واضح ہو گیا کہ قرآن کے علاوہ قرآن کی وضاحت بھی ہے۔ ایک قرآن ہے اور ایک بیانِ قرآن۔ قرآن اللہ تعالیٰ کا معجزاتی کلام ہے اور بیان قرآن سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے۔ دونوں کا تعلق وحی سے ہے تاہم وحی اگر بطور معجزہ نازل ہوئی ہے تو قرآن ہے اور وحی اگر بطور وضاحت قرآن نازل ہوئی تو سنت و حدیث ہے۔ لہٰذا قرآن و حدیث ناقابل تفریق ہیں۔

دوسرے لفظوں میں قرآن کو بیان قرآن سے جدا نہیں کیاجا سکتا۔ چنانچہ قرآن کو بیان قرآن سے جدا کرنا ہے تو بقول بعض اہل قلم ایسا ہے جیسے ناخدا کو کشتی سے جدا کرنا۔

یہ بات امت مسلمہ کے نزدیک مسلمات میں سے ہے کہ قرآن اصول و کلیات بیان فرماتا ہے جیسے:

وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۴۳)

اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔

نماز کس طرح قائم کرنی اور زکوۃکس طرح ادا کرنی ہے؟ یہ بتانا حدیث کے ذمے ہے۔ آج امت مسلمہ کے لیے ایک جامع ترین نظام حیات میسر ہے جوبیان قرآن بمعنی حدیث کے طفیل ہے۔

لیکن تاریخ شاہد ہے لوگوں نے حدیث کی تدوین پر پابندی لگا دی اور قرآنی حقائق اس ہستی کی زبان سے واضح ہونے نہیں دیے جس کے سینے پر یہ قرآن نازل ہوا ہے۔ اس پابندی سے امت مسلمہ کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔ چنانچہ رشید رضا تفسیر المنار میں لکھتے ہیں:

ونحن نجزم باننا نسینا و اضعنا من حدیث نبینا حظا عظیماً لعدم کتابۃ علماء الصحابۃ کلما سمعوہ۔

ہمیں یقین ہے کہ ہم نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حدیث میں سے بہت بڑے حصے کو فراموش اور ضائع کر دیا چونکہ علماء صحابہ نے جو کچھ سنا تھا اس کی کتابت نہیں کی۔

واضح رہے کہ مکتب اہل بیت تدوین حدیث پر پابندی سے متاثر نہیں ہوا چونکہ ہمارے ہاں حدیث عصر رسولؐ میں باملاء من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم وبخط علی علیہ السلام تدوین ہو گئی تھی جو کتاب علی کے نام ائمہ % سے تواتراً ثابت ہے۔

قرآن اور بیان قرآن ناقابل تفریق ہونے پر آیات:

وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی (۵۳ نجم: ۳۔۴)

وہ خواہش سے نہیں بولتا۔ یہ تو صرف وحی ہوتی ہے جو (اس پر) نازل کی جاتی ہے۔

بلا استثنا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جس حال میں بھی نطق کیا وہ وحی الٰہی ہے۔

وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ٭ وَ مَا نَہٰىکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا۔۔۔۔ (۵۹ حشر: ۷)

اور رسول جو تمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جاؤ۔

سے بھی نہایت واضح ہے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بیان، مثل قرآن وحی رحمن ہے۔


آیات 16 - 19