آیت 13
 

یُنَبَّؤُا الۡاِنۡسَانُ یَوۡمَئِذٍۭ بِمَا قَدَّمَ وَ اَخَّرَ ﴿ؕ۱۳﴾

۱۳۔ اس دن انسان کو وہ سب کچھ بتا دیا جائے گا جو وہ آگے بھیج چکا اور پیچھے چھوڑ آیا ہو گا۔

تفسیر آیات

اس دن ہونے والے فیصلے کا مضمون خود انسان کے پاس ہو گا جسے اس نے اپنی پوری زندگی میں تیار کیا ہے۔ اس مضمون کے دو حصے ہوں گے جو اس کو سنائے جائیں گے:

حصہ اول قَدَّمَ: وہ اعمال جو اس نے اپنی زندگی میں انجام دیے۔ چنانچہ سورہ یٰسٓ آیت ۱۲ میں فرمایا:

وَ نَکۡتُبُ مَا قَدَّمُوۡا وَ اٰثَارَہُمۡ۔۔۔۔ (۳۶ یٰسٓ: ۱۲)

جو کچھ وہ آگے بھیج چکے ہیں اور جو آثار پیچھے چھوڑ جاتے ہیں سب کو ہم لکھتے ہیں۔

اس آیت میں مَا قَدَّمُوۡا وہ اعمال خیر و بد ہیں جو انسان اپنی زندگی میں آگے بھیج چکا ہے۔ اسی طرح ہے:

وَ لۡتَنۡظُرۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍ۔۔۔۔ (۵۸ حشر: ۱۸)

اور ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل (روز قیامت) کے لیے کیا بھیجا ہے۔

حصہ دوم وَ اَخَّرَ: وہ اعمال جو وہ پیچھے چھوڑ آیا ہے یعنی اس نے اپنی زندگی میں کچھ ایسے عمل انجام دیے جس کے آثار اس کی زندگی کے بعد جاری و ساری رہتے ہیں۔ اس کا بھی حساب دینا ہو گا۔ حدیث ہے:

من سن سنۃ حسنۃ فلہ اجرھا و اجر من عمل بھا من بعدہ من غیر ان ینقص من اجورھم شیئا، و من سن سنۃ سیئۃ کان علیہ وزرھا و وزر من عمل بہا من بعدہ لا ینقص من اوزارھم شیئا۔ ( وسائل الشیعہ ۱۵:۲۴ باب اقامۃ السنن۔ الفاظ صحیح مسلم کے ہیں)

جو کسی اچھی روایت کو رواج دے تو اس کے لیے اس کو رواج دینے کا ثواب ہے اور جو اس پر اس کے بعد عمل کرے گا ان سب کے عمل کا بھی اس کے لیے ثواب ہے، اس پر عمل کرنے والوں کے عمل کے ثواب میں کسی کمی کے بغیر اور جو کسی بری روایت کو رواج دے گا تو اسے رواج دینے کا وبال بھی اس کے سر ہو گا اور اس پر عمل کرنے والوں کا وبال بھی اس کے سر ہو گا بغیر اس کے کہ اس کے وبال میں کوئی کمی ہو۔


آیت 13