آیات 14 - 15
 

بَلِ الۡاِنۡسَانُ عَلٰی نَفۡسِہٖ بَصِیۡرَۃٌ ﴿ۙ۱۴﴾

۱۴۔ بلکہ انسان اپنے آپ سے خوب آگاہ ہے،

وَّ لَوۡ اَلۡقٰی مَعَاذِیۡرَہٗ ﴿ؕ۱۵﴾

۱۵۔ اور خواہ وہ اپنی معذرتیں پیش کرے۔

تفسیر آیات

۱۔ انسان اپنے اعمال سے خوب واقف ہے۔ اس کے اعضاء و جوارح تک ان اعمال سے آگاہ ہیں، کل یہ تمام اعضاء گواہی دیں گے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نہایت قریب سے اس کے اعمال سے واقف ہے۔

فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی ﴿۳۲﴾ (۵۳ نجم: ۳۲)

پس اپنے نفس کی پاکیزگی نہ جتاؤ، اللہ پرہیزگار کو خوب جانتا ہے۔

حدیث میں آیا ہے:

اِنَّ السَّرِیرَۃَ اِذَا صَحَّتَ قَوِیَتِ الْعَلَانِیَۃُ۔ (الکافی ۲: ۲۹۵۔ باب الریاء)

انسان کا باطن اگر درست ہو جائے تو ظاہر بھی مضبوط رہتا ہے۔

بَصِیۡرَۃٌ میں تاء یا تو تانیث کے لیے ہے، محذوف حجۃ کی صفت کے طور پر یعنی حجۃ بصیرۃ یا یہ تاء مبالغہ کے لیے ہے جیسے علامۃ اور نسابۃ میں ہے یعنی انسان اپنے آپ کو خوب جانتا ہے۔

۲۔ وَّ لَوۡ اَلۡقٰی مَعَاذِیۡرَہٗ: خواہ وہ لاکھ معذرتیں پیش کرے۔ مَعَاذِیۡرَ ایک قول کے مطابق معذرۃ کی نہیں معذار کی جمع ہے جو پردے کو کہتے ہیں۔ بنابر ایں ترجمہ اس طرح ہو گا: خواہ وہ پردہ ڈالے رکھے یعنی ایک خیانت کار مجرم اپنی خیانت اور جرم کے ارتکاب کی لاکھ توجیہ اور عذر تراشے یا اس پر پردہ ڈالنے کی پوری کوشش کرے، اس کا ضمیر خوب جانتا ہے کہ اس نے اس جرم کا ارتکاب کس محرک کے تحت کیا ہے۔ وہ اپنے ضمیر کو نہ دھوکہ دے سکتا ہے، نہ اس سے چھپا سکتا ہے۔


آیات 14 - 15