ثُمَّ الۡجَحِیۡمَ صَلُّوۡہُ ﴿ۙ۳۱﴾

۳۱۔ پھر اسے جہنم میں تپا دو،

ثُمَّ فِیۡ سِلۡسِلَۃٍ ذَرۡعُہَا سَبۡعُوۡنَ ذِرَاعًا فَاسۡلُکُوۡہُ ﴿ؕ۳۲﴾

۳۲۔ پھر ستر ہاتھ لمبی زنجیر میں اسے جکڑ لو۔

اِنَّہٗ کَانَ لَا یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ الۡعَظِیۡمِ ﴿ۙ۳۳﴾

۳۳۔ یقینا یہ خدائے عظیم پر ایمان نہیں رکھتا تھا۔

وَ لَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ ﴿ؕ۳۴﴾

۳۴۔ اور نہ ہی مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔

34۔ یعنی یہ لوگ دو بری صفات کے حامل تھے: کفر اور بخل۔ کفر کے ذریعے یہ لوگ اللہ کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے تھے اور بخل کی وجہ سے وہ مخلوق سے لاتعلق تھے اور یہ جملہ ”مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا تھا“ قابل غور ہے، کیونکہ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کو نہ صرف یہ کہ مسکینوں کا خود خیال رکھنا چاہیے، بلکہ دوسروں کو بھی اس امر کی ترغیب دینی چاہیے۔

فَلَیۡسَ لَہُ الۡیَوۡمَ ہٰہُنَا حَمِیۡمٌ ﴿ۙ۳۵﴾

۳۵۔ لہٰذا آج یہاں اس کا کوئی دوست نہیں ہے۔

وَّ لَا طَعَامٌ اِلَّا مِنۡ غِسۡلِیۡنٍ ﴿ۙ۳۶﴾

۳۶۔ اور پیپ کے سوا اس کی کوئی غذا نہیں ہے،

لَّا یَاۡکُلُہٗۤ اِلَّا الۡخَاطِـُٔوۡنَ﴿٪۳۷﴾

۳۷۔ جسے خطاکاروں کے سوا کوئی نہیں کھائے گا۔

فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِمَا تُبۡصِرُوۡنَ ﴿ۙ۳۸﴾

۳۸۔ پس مجھے قسم ہے ان چیزوں کی جو تم دیکھتے ہو،

وَ مَا لَا تُبۡصِرُوۡنَ ﴿ۙ۳۹﴾

۳۹۔ اور ان کی بھی جنہیں تم نہیں دیکھتے ہو

39۔ یعنی پوری کائنات کی قسم! یہ قرآن ایک رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قول ہے جو اللہ کی طرف سے ہے۔ کائنات کی موجودات دو قسم کی ہیں: مشاہداتی اور غیر مشاہداتی اور یہ بھی ایک مسلم سی بات ہے کہ غیر مشاہداتی موجودات کا دائرہ ہمارے مشاہداتی موجودات سے کہیں زیادہ وسیع اور عظیم ہے۔

اِنَّہٗ لَقَوۡلُ رَسُوۡلٍ کَرِیۡمٍ ﴿ۚۙ۴۰﴾

۴۰۔ یقینا یہ ایک کریم رسول کا قول ہے،