وَّ مَا ہُوَ بِقَوۡلِ شَاعِرٍ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تُؤۡمِنُوۡنَ ﴿ۙ۴۱﴾

۴۱۔ اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں ہے، تم کم ہی ایمان لاتے ہو۔

وَ لَا بِقَوۡلِ کَاہِنٍ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَذَکَّرُوۡنَ ﴿ؕ۴۲﴾

۴۲۔ اور نہ ہی یہ کسی کاہن کا کلام ہے، تم کم ہی غور کرتے ہو۔

تَنۡزِیۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۴۳﴾

۴۳۔ یہ رب العالمین کی طرف سے نازل کردہ ہے۔

وَ لَوۡ تَقَوَّلَ عَلَیۡنَا بَعۡضَ الۡاَقَاوِیۡلِ ﴿ۙ۴۴﴾

۴۴۔ اور اگر اس (نبی) نے کوئی تھوڑی بات بھی گھڑ کر ہماری طرف منسوب کی ہوتی،

44۔ تَقَوَّلَ : کسی بات کا گھڑ لینا۔ اس میں اس بات کی وضاحت ہے کہ قرآن میں کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکتی۔ اس آیت سے حدیث غرانیق کی تکذیب ہوتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سورﮤ النجم میں اپنی طرف سے ایک آیت کا اضافہ کیا تھا۔ (معاذ اللہ)

لَاَخَذۡنَا مِنۡہُ بِالۡیَمِیۡنِ ﴿ۙ۴۵﴾

۴۵۔ تو ہم اسے دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے،

ثُمَّ لَقَطَعۡنَا مِنۡہُ الۡوَتِیۡنَ ﴿۫ۖ۴۶﴾

۴۶۔ پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے۔

فَمَا مِنۡکُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ عَنۡہُ حٰجِزِیۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔ پھر تم میں سے کوئی مجھے اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔

47۔ یعنی نبی کو اپنی طرف سے کسی کمی و بیشی کا حق حاصل نہیں۔ اگر بالفرض کوئی نبی وَحی میں تصرف کرتا اور اپنی طرف سے بھی کوئی بات گھڑ دیتا تو اللہ اس کو فوری سزا دیتا۔ لیکن اگر کوئی شخص اللہ کا نبی نہ ہو اور جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرے تو یہ الگ مسئلہ ہے۔ دیگر کافروں اور مجرموں کی طرح اسے بھی مہلت مل سکتی ہے۔

وَ اِنَّہٗ لَتَذۡکِرَۃٌ لِّلۡمُتَّقِیۡنَ﴿۴۸﴾

۴۸۔ اور پرہیزگاروں کے لیے یقینا یہ ایک نصیحت ہے۔

وَ اِنَّا لَنَعۡلَمُ اَنَّ مِنۡکُمۡ مُّکَذِّبِیۡنَ﴿۴۹﴾

۴۹۔ اور ہم جانتے ہیں کہ تمہارے درمیان کچھ لوگ تکذیب کرنے والے ہیں۔

وَ اِنَّہٗ لَحَسۡرَۃٌ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۵۰﴾

۵۰۔ یہ (تکذیب) کفار کے لیے یقینا (باعث) حسرت ہے۔

50۔ یعنی اس قرآن کی تکذیب کافروں کے لیے آخرت کے روز موجب حسرت ہو گی کہ انہوں نے کس جرم کا ارتکاب کیا تھا۔

وَ اِنَّہٗ لَحَقُّ الۡیَقِیۡنِ﴿۵۱﴾

۵۱۔ اور یہ سراسر حق پر مبنی یقینی ہے۔

51۔ لَحَقُّ الۡیَقِیۡنِ : حق الیقین اس مرحلے کا نام ہے جہاں کسی بات پر انتہائی یقین حاصل ہوتا ہے۔ حق واقع کو کہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں باطل آتا ہے، جس کا کوئی واقع نہیں ہوتا۔ ایک سراب سا ہوتا ہے، جس میں واقع ہونے کا گمان ہوتا ہے، اور کبھی امر واقع ہوتا ہے، لیکن یہ واقع لوگوں سے پوشیدہ ہوتا ہے۔ قرآن ایک واقع بھی ہے اور یہ واقع پوشیدہ بھی نہیں ہے۔

فَسَبِّحۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الۡعَظِیۡمِ﴿٪۵۲﴾

۵۲۔ پس آپ اپنے عظیم رب کے نام کی تسبیح کریں۔