آیات 38 - 43
 

فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِمَا تُبۡصِرُوۡنَ ﴿ۙ۳۸﴾

۳۸۔ پس مجھے قسم ہے ان چیزوں کی جو تم دیکھتے ہو،

وَ مَا لَا تُبۡصِرُوۡنَ ﴿ۙ۳۹﴾

۳۹۔ اور ان کی بھی جنہیں تم نہیں دیکھتے ہو

اِنَّہٗ لَقَوۡلُ رَسُوۡلٍ کَرِیۡمٍ ﴿ۚۙ۴۰﴾

۴۰۔ یقینا یہ ایک کریم رسول کا قول ہے،

وَّ مَا ہُوَ بِقَوۡلِ شَاعِرٍ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تُؤۡمِنُوۡنَ ﴿ۙ۴۱﴾

۴۱۔ اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں ہے، تم کم ہی ایمان لاتے ہو۔

وَ لَا بِقَوۡلِ کَاہِنٍ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَذَکَّرُوۡنَ ﴿ؕ۴۲﴾

۴۲۔ اور نہ ہی یہ کسی کاہن کا کلام ہے، تم کم ہی غور کرتے ہو۔

تَنۡزِیۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۴۳﴾

۴۳۔ یہ رب العالمین کی طرف سے نازل کردہ ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِمَا تُبۡصِرُوۡنَ: اس آیت میں کائنات کی دو قسمیں بیان ہوئی ہیں: مشاہداتی دنیا اور غیر مشاہداتی دنیا۔ آج انسان کے لیے یہ نہایت واضح ہے کہ ہماری مشاہداتی دنیا کے ماوراء ایک غیر مشاہداتی دنیا ہے جو اس مشاہداتی دنیا کے ساتھ قابل قیاس نہیں ہے۔ یعنی غیر مشاہداتی دنیاؤں کے مقابلے میں ہماری مشاہداتی دنیا کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

آیۂ کریمہ میں وَ مَا لَا تُبۡصِرُوۡنَ فرما کر ان غیر مشاہداتی دنیاؤں کی طرف مختصر فقرے میں اشارہ فرمایا تاکہ انسان اس مشاہداتی دنیا کی باعظمت اور حیرت انگیز مخلوقات کو دیکھ کر یہ خیال نہ کرے کہ اللہ کی کرشمہ سازی اسی مشاہداتی دنیا میں، خواہ وہ کتنی ہی عظیم کیوں نہ ہو، محدود ہے۔

اس مشاہداتی کائنات میں موجود حکمت و دانائی کی قسم! ایسا حکیم خالق اپنی مخلوق کو ہدایت کا سامان فراہم کیے بغیر نہیں چھوڑ سکتا۔ لہٰذا جو ہدایت کے لیے دستور لے کر آیا ہے وہ قرآن، ہماری طرف سے آنے والے رسول کا قول ہے۔

۲۔ اِنَّہٗ لَقَوۡلُ رَسُوۡلٍ کَرِیۡمٍ: کل کائنات کی قسم! یہ قرآن ایک رسول کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا قول ہے جو رب العالمین کی طرف سے ہے۔ اپنا ذاتی قول نہیں ہے، رسول کریم کا رسالتی قول ہے۔ لہٰذا یہ سوال نہیں آتا کہ یہ قول خدا ہے، قول رسول کس طرح ہے؟ منکرین رسالت کہتے تھے کہ یہ قول محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ہے یعنی ان کا اپنا ذاتی قول ہے۔ اس کی نفی کر کے فرمایا: یہ قول رسول ہے۔ یعنی رسالتی قول ہے ذاتی نہیں۔

۳۔ وَّ مَا ہُوَ بِقَوۡلِ شَاعِرٍ: یہ قول جب بہ حیثیت رسول ہے تو یہ بحیثیت شاعر نہیں ہے۔ قرآن شاعرانہ خیال بافی کا قول نہیں ہے۔

وَ مَا عَلَّمۡنٰہُ الشِّعۡرَ وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لَہٗ۔۔۔ (۳۶ یٰسٓ : ۶۹)

اور ہم نے اس (رسول) کو شعر نہیں سکھایا اور نہ ہی یہ اس کے لیے شایان شان ہے۔

حقائق سے دور صرف خیال کی شاعرانہ باتیں کرنا ہمارے رسول کے شایان شان نہیں ہے بلکہ قرآن حقائق بیان کرنے والی کتاب ہے۔ شعر شاعر کی اپنی ذہنی تخلیق کا نام ہے۔ شعر حقائق کی نمائندگی نہیں کرتا۔ قرآن حقائق کی وہ باتیں کرتا ہے جو کسی اور ذریعے سے دستیاب نہیں ہیں۔

۴۔ قَلِیۡلًا مَّا تُؤۡمِنُوۡنَ: مَّا زائدہ ہے۔ اصل میں تومنون ایمانا قلیلاً ہے کہ اس رسول کی حقانیت پر اگرچہ کم ایمان تمہارے دلوں میں آتا ہے لیکن اس کا اظہار نہیں کرتے۔ اس تفسیر کے مطابق کافروں کے دلوں میں جو ایمان آتا ہے اسے قلیل کہا ہے۔ دوسری تفسیر یہ کی گئی ہے کہ قلیل کا مطلب عدم ایمان ہے۔

۵۔ وَ لَا بِقَوۡلِ کَاہِنٍ: یہ قرآن کاہن کا قول بھی نہیں ہے جو شیاطین سے ماضی کی باتیں سنتے اور اس بنیاد پر آنے والی باتوں کا اندازہ لگا کر پیشگوئی کرتے ہیں جو آیندہ کو ماضی پر قیاس کرنے کا ایک واہمہ ہے۔ قرآن کہانت نہیں، حقیقت ہے۔

۶۔ قَلِیۡلًا مَّا تَذَکَّرُوۡنَ: تذکر اور نصیحت کم لیتے ہو۔ اس جملے کی تفسیر عیناً قَلِیۡلًا مَّا تُؤۡمِنُوۡنَ کی طرح ہے۔

۷۔ تَنۡزِیۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ: یہ قرآن اپنے اسلوب کلام سے ظاہر ہے شعر نہیں ہے اور یہ قرآن ایک دستور اور نظام حیات ہے، کہانت نہیں ہے بلکہ یہ رب العالمین کی طرف سے ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، مالکیت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی مملوک پر مہربان ہے۔ اسے اپنی مملوک کی سعادت کے لیے نازل کیا ہے۔


آیات 38 - 43