آیات 33 - 34
 

اِنَّہٗ کَانَ لَا یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ الۡعَظِیۡمِ ﴿ۙ۳۳﴾

۳۳۔ یقینا یہ خدائے عظیم پر ایمان نہیں رکھتا تھا۔

وَ لَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ ﴿ؕ۳۴﴾

۳۴۔ اور نہ ہی مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔

تفسیر آیات

لوگ جہنم میں اس لیے جا رہے ہیں کہ یہ لوگ دو صفات کے حامل تھے: کفر اور بخل۔ کفر کے ذریعے یہ لوگ اللہ کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے تھے اور بخل کی وجہ سے وہ مخلوق سے لاتعلق تھے اور یہ فقرہ ’’نہ ہی مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا‘‘ قابل توجہ ہے کیونکہ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ انسان کو نہ صرف مسکینوں کا خیال رکھنا چاہیے بلکہ دوسروں کو بھی اس امر کی ترغیب دینی چاہیے۔

یہ موقف دراصل کافر کا ہے جسے وہ مال اور مسکین کے بارے میں اپناتا ہے۔ کافر کہتے ہیں:

قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنُطۡعِمُ مَنۡ لَّوۡ یَشَآءُ اللّٰہُ۔۔۔۔ (۳۶ یٰسٓ : ۴۷)

کفار مومنین سے کہتے ہیں: کیا ہم اسے کھلائیں جسے اگر اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا؟

اسی طرح جب کافروں سے جہنم کی طرف جاتے ہوئے پوچھا جائے گا کہ تمہیں کس چیز نے جہنم میں داخل کر دیا تو وہ جواب دیں گے:

وَ لَمۡ نَکُ نُطۡعِمُ الۡمِسۡکِیۡنَ ﴿۴۴﴾ (۷۴ مدثر: ۴۴)

اور ہم مسکین کو کھلاتے نہیں تھے۔

یہاں ایک سوال آتا ہے کہ یہ سورہ مکی ہے اور مکہ میں ابھی زکوۃ کا حکم نہیں آیا تھا تو مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہ دینے پر عذاب کیسے؟

جواب: مسکین کے بارے میں یہ موقف کافر کا ہے جب کہ ایمان کا لازمہ غریب پروری ہے۔ چنانچہ سورۃ الذاریات آیت ۱۹ میں متقین کے اوصاف بیان فرماتے ہوئے فرمایا:

وَ فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَ الۡمَحۡرُوۡمِ﴿۱۹﴾

اور ان کے اموال میں سائل اور محروم کے لیے حق ہوتا تھا۔

اور سورۃ المعارج آیات ۱۹ تا ۲۵ میں فرمایا:

اِنَّ الۡاِنۡسَانَ خُلِقَ ہَلُوۡعًا اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوۡعًا وَّ اِذَا مَسَّہُ الۡخَیۡرُ مَنُوۡعًا اِلَّا الۡمُصَلِّیۡنَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَاتِہِمۡ دَآئِمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ مَّعۡلُوۡمٌ لِّلسَّآئِلِ وَ الۡمَحۡرُوۡمِ ﴿۲۵﴾

انسان یقینا کم حوصلہ خلق ہوا ہے۔ جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے اور جب اسے آسائش حاصل ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے سوائے نمازگزاروں کے جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں اور جن کے اموال میں معین حق ہے سائل اور محروم کے لیے۔

چنانچہ اسی آیت میں فرمایا: خدائے عظیم پر ایمان نہ لانے کا لازمہ یہ تھا کہ وہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا تھا۔ ایک جواب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اہل جہنم، نماز اور غریب پروری کی وجہ سے ملنے والے اہل جنت کے درجات دیکھیں گے تو بڑی حسرت سے کہیں گے: ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور غریب پروری نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا مسکین پر رحم نہ کرنا، عدم ایمان کی علامت کے طور پر موجب عذاب ہے۔ ولم ار احداً تصدی لھذہ الاثارۃ و الاجابۃ۔


آیات 33 - 34