فَاعۡتَرَفُوۡا بِذَنۡۢبِہِمۡ ۚ فَسُحۡقًا لِّاَصۡحٰبِ السَّعِیۡرِ﴿۱۱﴾

۱۱۔ اس طرح وہ اپنے گناہ کا اعتراف کر لیں گے، پس اہل جہنم کے لیے رحمت خدا سے دوری ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَیۡبِ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ اَجۡرٌ کَبِیۡرٌ﴿۱۲﴾

۱۲۔ جو لوگ غائبانہ اپنے رب کا خوف کرتے ہیں یقینا ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔

12۔ کفار و منافقین رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف باتیں کرتے اور اسے راز میں رکھنے کا کہتے تھے، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

وَ اَسِرُّوۡا قَوۡلَکُمۡ اَوِ اجۡہَرُوۡا بِہٖ ؕ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ﴿۱۳﴾

۱۳۔ اور تم لوگ اپنی باتوں کو چھپاؤ یا ظاہر کرو یقینا وہ تو سینوں میں موجود رازوں سے خوب واقف ہے۔

13۔ اس سلسلے میں فرمایا: کیا جس نے پیدا کیا ہے وہ اپنی مخلوق کے راز ہائے نہاں سے واقف نہ ہو گا۔ واضح رہے کہ خلق ہونے کے بعد انسان اللہ تعالیٰ سے بے نیاز نہیں ہوتا۔ اس انسان کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تخلیقی عمل جاری ہے، تو پھر اللہ کی نگاہ سے کون سی چیز پوشیدہ ہو سکتی ہے؟

اَلَا یَعۡلَمُ مَنۡ خَلَقَ ؕ وَ ہُوَ اللَّطِیۡفُ الۡخَبِیۡرُ﴿٪۱۴﴾

۱۴۔ کیا جس نے پیدا کیا اس کو علم نہیں؟ حالانکہ وہ باریک بین، بڑا باخبر بھی ہے۔

ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ ذَلُوۡلًا فَامۡشُوۡا فِیۡ مَنَاکِبِہَا وَ کُلُوۡا مِنۡ رِّزۡقِہٖ ؕ وَ اِلَیۡہِ النُّشُوۡرُ﴿۱۵﴾

۱۵۔ وہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو رام کیا پس اس کے دوش پر چلو اور اس کے رزق میں سے کھاؤ اور اسی کے پاس زندہ ہو کر جانا ہے۔

15۔ اس زمین کی پشت پر چلتے پھرتے اور رزق خدا سے بہرہ ور ہوتے ہوئے یہ نہ بھولو کہ ایک دن اس کے آگے جوابدہی کے لیے حاضر ہونا ہے۔

ذَلُوۡلًا : زمین کو انسانی زندگی کے لیے رام و مسخر بنایا، ورنہ فضائے ارضی سے ذرا ہٹ کر دیکھو تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اللہ نے زمین کو انسان کے لیے مسخر بنانے کی خاطر کیا کیا حیرت انگیز سامان زیست فراہم کیے ہیں۔

ءَاَمِنۡتُمۡ مَّنۡ فِی السَّمَآءِ اَنۡ یَّخۡسِفَ بِکُمُ الۡاَرۡضَ فَاِذَا ہِیَ تَمُوۡرُ ﴿ۙ۱۶﴾

۱۶۔ کیا تم اس بات سے بے خوف ہو کہ آسمان والا تمہیں زمین میں دھنسا دے اور زمین جھولنے لگ جائے؟

اَمۡ اَمِنۡتُمۡ مَّنۡ فِی السَّمَآءِ اَنۡ یُّرۡسِلَ عَلَیۡکُمۡ حَاصِبًا ؕ فَسَتَعۡلَمُوۡنَ کَیۡفَ نَذِیۡرِ﴿۱۷﴾

۱۷۔ کیا تم اس بات سے بے خوف ہو کہ آسمان والا تم پر پتھر برسانے والی ہوا بھیج دے؟ پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میری تنبیہ کیسی تھی۔

17۔ مَّنۡ فِی السَّمَآءِ : ”جو آسمان میں ہے“ سے مراد وہ فرشتے ہیں جو تدبیر عالم پر مامور ہیں۔

وَ لَقَدۡ کَذَّبَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ فَکَیۡفَ کَانَ نَکِیۡرِ﴿۱۸﴾

۱۸۔ اور بتحقیق ان سے پہلے لوگوں نے بھی تکذیب کی تھی تو دیکھ لو میرا عذاب کیسا تھا۔

اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اِلَی الطَّیۡرِ فَوۡقَہُمۡ صٰٓفّٰتٍ وَّ یَقۡبِضۡنَ ؔۘؕ مَا یُمۡسِکُہُنَّ اِلَّا الرَّحۡمٰنُ ؕ اِنَّہٗ بِکُلِّ شَیۡءٍۭ بَصِیۡرٌ﴿۱۹﴾

۱۹۔ کیا یہ لوگ اپنے اوپر پرواز کرنے والے پرندوں کو پر پھیلاتے ہوئے اور سمیٹتے ہوئے نہیں دیکھتے؟ رحمن کے سوا انہیں کوئی تھام نہیں سکتا، بتحقیق وہ ہر چیز پر خوب نگاہ رکھنے والا ہے۔

19۔ ہوا کے دوش پر محو پرواز پرندوں پر ایک نظر ڈالیں کہ پروں کو پھیلانے اور سمیٹنے کے ذریعے کس طرح فضا کو مسخر کرتے ہیں، ان کو یہ قوت رحمن نے عنایت کی ہے۔

اَمَّنۡ ہٰذَا الَّذِیۡ ہُوَ جُنۡدٌ لَّکُمۡ یَنۡصُرُکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ الرَّحۡمٰنِ ؕ اِنِ الۡکٰفِرُوۡنَ اِلَّا فِیۡ غُرُوۡرٍ ﴿ۚ۲۰﴾

۲۰۔ رحمن کے سوا تمہارا وہ کون سا لشکر ہے جو تمہاری مدد کر سکے؟ کفار تو بس دھوکے میں ہیں۔