آیات 16 - 17
 

ءَاَمِنۡتُمۡ مَّنۡ فِی السَّمَآءِ اَنۡ یَّخۡسِفَ بِکُمُ الۡاَرۡضَ فَاِذَا ہِیَ تَمُوۡرُ ﴿ۙ۱۶﴾

۱۶۔ کیا تم اس بات سے بے خوف ہو کہ آسمان والا تمہیں زمین میں دھنسا دے اور زمین جھولنے لگ جائے؟

اَمۡ اَمِنۡتُمۡ مَّنۡ فِی السَّمَآءِ اَنۡ یُّرۡسِلَ عَلَیۡکُمۡ حَاصِبًا ؕ فَسَتَعۡلَمُوۡنَ کَیۡفَ نَذِیۡرِ﴿۱۷﴾

۱۷۔ کیا تم اس بات سے بے خوف ہو کہ آسمان والا تم پر پتھر برسانے والی ہوا بھیج دے؟ پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میری تنبیہ کیسی تھی۔

تفسیر آیات

۱۔ ءَاَمِنۡتُمۡ: اس رام و مسخر زمین کے دوش پر بسنے والوں کو یہ خوف لاحق نہیں ہے کہ اس زمین کو ان کے لیے امن کا گہوارہ بنانے والے کے کارندے جو آسمانوں میں رہتے ہیں اس زمین کو رام و مسخر کرنے سے ہاتھ اٹھا لیں، پھر یہ زمین ایک سرکش بے قابو سواری کی طرح ہو جائے اور اپنے دوش پر بسنے والوں کو زمین میں دھنسا دے یا ایک زلزلے کی صورت میں انہیں اپنے دوش سے الٹ دے، یہ پرسکون زمین زلزلے کی صورت میں جھولنے لگ جائے؟

۲۔ مَّنۡ فِی السَّمَآءِ: سے مراد من قدرتہ فی السمآء یعنی وہ ’’جس کی قدرت آسمان میں ہے‘‘ ہو سکتا ہے یا وہ فرشتے ہو سکتے ہیں جو عذاب نازل کرنے پر مامور ہیں۔ لہٰذا مَّنۡ فِی السَّمَآءِ ’’جو آسمان میں ہے‘‘ سے مراد خود ذات الٰہی لینا درست نہیں ہے چونکہ اللہ کے لیے مکانیت کا تصور ممکن نہیں ہے۔

۳۔ اَنۡ یُّرۡسِلَ عَلَیۡکُمۡ حَاصِبًا: اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ زمین سے لاوا پھٹ جائے جس سے تم پر پتھر برسائے جائیں یا ایسی آندھی آ سکتی ہے جس سے تمہارا سکون غارت ہو جائے اور وہ تمہاری بستیوں کو تباہ کر دے۔

۴۔ فَسَتَعۡلَمُوۡنَ کَیۡفَ نَذِیۡرِ: اس وقت تمہیں معلوم ہو جائے گا تنبیہ خدا کو اعتنا میں نہ لانے کا انجام کیا ہوتا ہے۔


آیات 16 - 17