آیات 9 - 11
 

قَالُوۡا بَلٰی قَدۡ جَآءَنَا نَذِیۡرٌ ۬ۙ فَکَذَّبۡنَا وَ قُلۡنَا مَا نَزَّلَ اللّٰہُ مِنۡ شَیۡءٍ ۚۖ اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا فِیۡ ضَلٰلٍ کَبِیۡرٍ﴿۹﴾

۹۔ وہ جواب دیں گے: ہاں تنبیہ کرنے والا ہمارے پاس آیا تھا مگر ہم نے (اسے) جھٹلا دیا اور ہم نے کہا: اللہ نے کچھ بھی نازل نہیں کیا ہے، تم لوگ بس ایک بڑی گمراہی میں مبتلا ہو۔

وَ قَالُوۡا لَوۡ کُنَّا نَسۡمَعُ اَوۡ نَعۡقِلُ مَا کُنَّا فِیۡۤ اَصۡحٰبِ السَّعِیۡرِ﴿۱۰﴾

۱۰۔ اور وہ کہیں گے: اگر ہم سنتے یا عقل سے کام لیتے تو ہم جہنمیوں میں نہ ہوتے۔

فَاعۡتَرَفُوۡا بِذَنۡۢبِہِمۡ ۚ فَسُحۡقًا لِّاَصۡحٰبِ السَّعِیۡرِ﴿۱۱﴾

۱۱۔ اس طرح وہ اپنے گناہ کا اعتراف کر لیں گے، پس اہل جہنم کے لیے رحمت خدا سے دوری ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ قَالُوۡا بَلٰی: ذلت اور رسوائی کے ساتھ اعتراف کرنا پڑ رہا ہے۔ اعتراف میں وہ کہتے ہیں: اس آتش کے عذاب کی تنبیہ کرنے والے آئے تھے اور یہ کہا تھا کہ ہم پر اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے اور کہا تھا انکار کرنے والوں کے لیے آتش جہنم کا عذاب ہے لیکن ہم نے ان پیغمبران پر وحی کے نزول پر ایمان لانے کی بجائے الٹا انہیں گمراہ قرار دیا اور کہا:

اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ﴿۴۷﴾ (۳۶ یٰسٓ : ۴۷)

تم تو بس صریح گمراہی میں مبتلا ہو۔

۲۔ وَ قَالُوۡا لَوۡ کُنَّا نَسۡمَعُ اَوۡ نَعۡقِلُ: جہنم جانے والے افسوس اور اعتراف کے لہجے میں کہیں گے: اگر ہم سنتے یا عقل سے کام لیتے تو ہم جہنمی نہ ہوتے۔ اس آیت کے مطابق نجات کی راہ اختیار کرنے کے لیے دو طریقے ہیں: سمعی یا عقلی۔ قابل توجہ یہ ہے کہ اس آیت میں سمع اور عقل نہیں فرمایا بلکہ سمع یا عقل فرمایا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان دونوں میں سے ایک اختیار کرنے سے نجات کا راستہ مل جاتا ہے۔ ان دونوں میں کسی ایک کو صحیح کام میں لیا جائے تو دوسرا اس کے ساتھ ہوتا ہے۔

سمع سے کام لیا جائے تو انبیاء علیہم السلام کی دعوت سمجھ سکتا ہے اور عقل کو اپنا کام کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اگر عقل سے کام لیا جائے تو دعوت حق سن سکتا ہے اور انبیاء علیہم السلام کی دعوت کو پذیرائی دینے والی عقل ہی ہوتی ہے:

اِنَّمَا یَسۡتَجِیۡبُ الَّذِیۡنَ یَسۡمَعُوۡنَ۔۔۔۔ (۶ انعام: ۳۶)

یقینا مانتے وہی ہیں جو سنتے ہیں۔۔۔۔

انبیاء علیہم السلام کی دعوت پر وہی لوگ لبیک کہیں گے جو توجہ سے بات سنتے ہیں۔ اگر وہ عقل سے کام نہ لیں تو سننے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔

وَ نَطۡبَعُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ فَہُمۡ لَا یَسۡمَعُوۡنَ﴿۱۰۰﴾ (۷ اعراف: ۱۰۰)

اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں پھر وہ کچھ نہیں سنتے۔

اس جگہ سمع کو عقل کا نتیجہ قرار دیا ہے۔

اَمۡ تَحۡسَبُ اَنَّ اَکۡثَرَہُمۡ یَسۡمَعُوۡنَ اَوۡ یَعۡقِلُوۡنَ۔۔۔۔ (۲۵ فرقان:۴۴)

یا کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر سننے یا سمجھنے کے لیے تیار ہیں؟

اس آیت میں بھی سمع یا عقل میں ایک راستے کے اختیار کو ہدایت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔

اسلام کے نزدیک اصل مکلف عقل ہے ثواب و عتاب عقل کے مطابق ہوتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے:

تَفَکُّرُ سَاعَۃٍ خَیْرٌ مِنْ عِبَادِۃِ سَنَۃٍ۔۔۔ ( مستدرک الوسائل ۱۱: ۱۸۳)

ایک گھڑی کے لیے فکر سے کام لینا ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔

چونکہ صحیح فکر انسان کے عمر بھر راہ راست پر چلنے کی رہنمائی کرتی ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

مَنْ کَانَ عَاقِلًا کَانَ لَہُ دِیْنٌ وَ مَنْ کَانَ لَہُ دِیْنٌ دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔ ( الکافی ۔۱: ۱۱)

جو عاقل ہو گا وہ دیندار ہو گا، جو دیندار ہو گا وہی جنت جائے گا۔

۳۔ فَاعۡتَرَفُوۡا بِذَنۡۢبِہِمۡ: آتش جہنم سامنے آنے پر ان کافروں نے اپنے جرائم کا اعتراف کیا۔ لیکن اس اعتراف کا کوئی مثبت نتیجہ نہ ہو گا۔ بلکہ اس سے ان کے عذاب کے مستحق ہونے کا خود مجرم کے زبانی ثبوت فراہم ہو گا۔

۴۔ فَسُحۡقًا لِّاَصۡحٰبِ السَّعِیۡرِ: رحمت حق سے دوری ہو جہنم والوں کے لیے۔ السحق اسم مصدر ہے جس کے معنی دوری کے ہیں۔


آیات 9 - 11