آیت 15
 

ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ ذَلُوۡلًا فَامۡشُوۡا فِیۡ مَنَاکِبِہَا وَ کُلُوۡا مِنۡ رِّزۡقِہٖ ؕ وَ اِلَیۡہِ النُّشُوۡرُ﴿۱۵﴾

۱۵۔ وہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو رام کیا پس اس کے دوش پر چلو اور اس کے رزق میں سے کھاؤ اور اسی کے پاس زندہ ہو کر جانا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ الۡاَرۡضَ ذَلُوۡلًا: تدبیر امور سے متعلق زمین کی تخلیق کی کیفیت کی طرف انسان کی توجہ مبذول کرائی جا رہی ہے کہ اللہ وہ مدبر حیات ہے جس نے تمہارے لیے کرۂ ارض کو ذلول رام بنایا ورنہ شروع میں یہ زمین حیات و زندگی کے لیے رام و مسخر نہ تھی۔

ذلول ، رام بنانے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ اس کرۂ ارض کو تمہاری زندگی کے لیے حیات آفرین بنایا۔ تمہاری زندگی کے تمام لوازم اس کی سطح پر، اس کے دوش پر فراہم فرمائے:

وَ بٰرَکَ فِیۡہَا وَ قَدَّرَ فِیۡہَاۤ اَقۡوَاتَہَا فِیۡۤ اَرۡبَعَۃِ اَیَّامٍ ؕ سَوَآءً لِّلسَّآئِلِیۡنَ﴿۱۰﴾ (۴۱ فصلت:۱۰)

اور اس میں برکات رکھ دیں اور اس میں چار دنوں میں حاجتمندوں کی ضروریات کے برابر سامان خوراک مقرر کیا۔

اس زمین میں برکتیں رکھ دیں اور اس میں چار دنوں میں حاجت مندوں کی ضروریات کے مطابق سامان خوراک مقرر فرمایا۔

اس کی خاک میں بیسیوں عناصر ودیعت فرمائے جن میں ترکیب کے مختلف ہونے سے مختلف دانے اور مختلف پھل وجود میں آتے ہیں۔ ان سے نہ صرف انسان اور دیگر تمام جانداروں کے لیے زیست کے سامان فراہم ہوتے ہیں بلکہ دانوں اور پھلوں کے مختلف ہونے سے انسانی ذوق کو بھی تسکین ملتی ہے۔

اس طرح زمین کو انسان کے لیے رام و مسخر بنایا ورنہ فضائے ارضی سے ذرا ہٹ کر دیکھو تو پتہ چلتا ہے کرۂ ارض سے بیرون، فضائے آسمان زندگی کے لیے ہرگز سازگار نہیں ہے۔ اس بات کا بھی علم ہو جاتا ہے اللہ نے زمین کو انسان کے لیے مسخر بنانے کی خاطر کیا کیا حیرت انگیز سامان زیست فراہم کیے ہیں اور ان ناسازگار فضاؤں میں اس کرۂ ارضی کو کیسے سازگار بنایا۔

ذلول اور رام کی دوسری صورت یہ ہے کہ ذلول اس جانور کو کہتے ہیں جس کی پشت سوار کے لیے رام و مسخر ہو اور اس پر آرام سے سفرکیا جا سکے۔ اس طرح زمین بھی اپنی پشت پر سوار انسانوں کے لیے نہایت رام و مسخر ہے۔

چنانچہ زمین اپنی محوری حرکت میں ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اور سورج کے گرد ۶۵ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اور اپنے شمسی نظام کے ممبران کی ہمراہی میں بیس ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے رواں دواں ہے۔ اس کے باوجود اپنی پشت پر سواروں کو اپنی جاذبیت اور کشش کے ذریعے بکھر جانے، مضطرب و متزلزل ہونے سے محفوظ رکھتی ہے:

اَللّٰہُ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ قَرَارًا۔۔۔۔ (۴۰ غافر: ۶۴)

اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو جائے قرار بنایا۔

حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے:

وَ عَدْلَ حَرَکَاتِہَا بِالرَّاسِیَاتِ مِنْ جَلَامِیدِھَا۔۔۔۔ ( نہج البلاغۃ خطبۃ الاشباح ۹۱)

اور زمین کی حرکتوں کو پہاڑوں کی چٹانوں کے ذریعے معتدل بنایا۔

۲۔ فَامۡشُوۡا فِیۡ مَنَاکِبِہَا وَ کُلُوۡا مِنۡ رِّزۡقِہٖ: پس اس زمین کے دوش پر چلو۔ ہمارے نزدیک دوش سے پشت زمین مراد ہے۔ دوش کی تعبیر اس لیے اختیار فرمایا چونکہ زمین انسانوں کو اٹھا لیتی ہے اور انسان کسی چیز کو اٹھاتا ہے تو دوش پر اٹھاتا ہے۔ فَامۡشُوۡا ایک حکم ارشادی ہے جس سے منابع ارضی کی حلیت کا قانون بنتا ہے جیسے آیہ خَلَقَ لَکُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا۔۔۔۔ (۲ بقرۃ: ۲۹) سے یہ قانون بنتا ہے۔ یعنی طلب رزق کے لیے زمین کے دوش پر چلا کرو۔ ایک جگہ جامد بیٹھ کر اللہ کی رحمت کی توقع نہ کرو۔ اللہ کی رحمت کی تلاش کے لیے دوڑ دھوپ شرط ہے۔ دوڑ دھوپ محنت مشقت کر کے رزق خدا حاصل کرو اور اسے اپنے مصرف میں لے آؤ۔ کھاؤ تاکہ جیتے رہو، اپنی زندگی کا کارواں جاری ساری رکھو۔

۳۔ وَ اِلَیۡہِ النُّشُوۡرُ: اس زمین کی پشت پر چلتے پھرتے اور رزق خدا سے بہرہ مند ہوتے ہوئے یہ نہ بھولو کہ ایک دن اس کے آگے جوابدہی کے لیے حاضر ہونا ہے۔


آیت 15