آیات 11 - 12
 

فَفَتَحۡنَاۤ اَبۡوَابَ السَّمَآءِ بِمَآءٍ مُّنۡہَمِرٍ ﴿۫ۖ۱۱﴾

۱۱۔ پھر ہم نے زوردار بارش سے آسمان کے دھانے کھول دیے۔

وَّ فَجَّرۡنَا الۡاَرۡضَ عُیُوۡنًا فَالۡتَقَی الۡمَآءُ عَلٰۤی اَمۡرٍ قَدۡ قُدِرَ ﴿ۚ۱۲﴾

۱۲۔ اور زمین کو شگافتہ کر کے ہم نے چشمے جاری کر دیے تو (دونوں) پانی اس امر پر مل گئے جو مقدر ہو چکا تھا۔

تشریح کلمات

مُّنۡہَمِرٍ:

( ھ م ر ) الھمر کے معنی آنسو یا پانی بہا دینے کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ فَفَتَحۡنَاۤ اَبۡوَابَ السَّمَآءِ: آسمان کے دھانے کھولنے کی تعبیر سے یہ بتانا مقصود ہے کہ غیر معمولی بارش کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

اس قسم کی بارش کا ہم نے سنہ ۲۰۱۰ کے برساتی موسم میں مشاہدہ کیا جس سے پاکستان کی پوری سرزمین کا پانچواں حصہ زیر آب آ گیا اوریہ تاریخ کا سنگین ترین سیلاب تھا۔

۲۔ وَّ فَجَّرۡنَا الۡاَرۡضَ: ساتھ زمین سے بھی چشمے پھوٹے۔ زمین سے پھوٹنے والے پانی سے مراد سمندر کا پانی ہو سکتا ہے جو طوفان کے ذریعے خشکی پر آ گیا ہو۔ حضرت شیخ محمد الحسین کاشف الغطاء احتمال دیتے ہیں کہ آسمان سے کوئی دمدار سیارہ سمندر میں گرا ہو گا جس سے یہ طوفان آ گیا۔

۳۔ فَالۡتَقَی الۡمَآءُ: دونوں پانیوں کے ملنے سے وہ عظیم طوفان آ گیا جس نے اونچے پہاڑوں تک کو ڈبو دیا تھا۔

۴۔ عَلٰۤی اَمۡرٍ قَدۡ قُدِرَ: آسمان اور زمین کے پانی نے مل کر اس مقدار کو پورا کر دیا جسے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا تھا یعنی جس حد تک تقدیر الٰہی میں پانی نے اونچا جانا تھا اس حد تک آنے کے لیے دونوں پانی جمع ہو گئے۔ وہ امر مقدر یہ تھا کہ اہل ایمان کے علاوہ تمام کافروں کے زندہ بچنے کا امکان ختم ہو جائے۔


آیات 11 - 12