آیت 15
 

وَ لَقَدۡ تَّرَکۡنٰہَاۤ اٰیَۃً فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ﴿۱۵﴾

۱۵۔ اور بتحقیق اس (کشتی) کو ہم نے ایک نشانی بنا چھوڑا تو کیا کوئی نصیحت قبول کرنے والا ہے؟

تفسیر آیات

۱۔ تَّرَکۡنٰہَاۤ: ضمیر اگر سفینہ کی طرف ہے جس کا سیاق سے مفہوم ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ہم نے اس سفینہ کو عبرت کی نشانی کے طور پر ایک مدت تک باقی رکھا۔ چنانچہ کہتے ہیں کوہ ارارات (جودی) پر اس کشتی کے آثار پائے گئے ہیں۔ ملاحظہ ہو سورہ ہود : ۴۴۔

اور اگر تَّرَکۡنٰہَاۤ کی ضمیر طوفان کے واقعہ کی طرف ہے تو اس صورت میں اس کے معنی واضح ہیں۔

۲۔ فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ: ہے کوئی اس طوفان اور اس کی تباہی سے نصیحت حاصل کرنے والا۔ اس سوالیہ جملے کا اشارہ مکہ کے مشرکین کی طرف ہے۔


آیت 15