وَ لَا تَجۡعَلُوۡا مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ ؕ اِنِّیۡ لَکُمۡ مِّنۡہُ نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ۚ۵۱﴾

۵۱۔ اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود نہ بناؤ، میں اللہ کی طرف سے تمہیں صریح تنبیہ کرنے والا ہوں۔

کَذٰلِکَ مَاۤ اَتَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا قَالُوۡا سَاحِرٌ اَوۡ مَجۡنُوۡنٌ ﴿ۚ۵۲﴾

۵۲۔ اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں ان کے پاس کوئی رسول نہیں آیا مگر اس سے انہوں نے کہا : جادوگر ہے یا دیوانہ۔

اَتَوَاصَوۡا بِہٖ ۚ بَلۡ ہُمۡ قَوۡمٌ طَاغُوۡنَ ﴿ۚ۵۳﴾

۵۳۔ کیا ان سب نے ایک دوسرے کو اسی بات کی نصیحت کی ہے؟ (نہیں) بلکہ وہ سرکش قوم ہیں۔

فَتَوَلَّ عَنۡہُمۡ فَمَاۤ اَنۡتَ بِمَلُوۡمٍ ﴿٭۫۵۴﴾

۵۴۔ پس آپ ان سے رخ پھیر لیں تو آپ پر کوئی ملامت نہ ہو گی۔

وَّ ذَکِّرۡ فَاِنَّ الذِّکۡرٰی تَنۡفَعُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۵۵﴾

۵۵۔ اور نصیحت کرتے رہیں کیونکہ نصیحت تو مومنین کے لیے یقینا فائدہ مند ہے۔

55۔ پند و نصیحت سنتے رہنے سے دلوں کو زنگ نہیں لگتا۔ دل ہمیشہ ایمان اور یاد خدا کی طاقت سے چارج (charge) ہوتے رہتے ہیں۔ صالحین ہمیشہ پند و نصیحت کی تلاش میں ہوتے ہیں، جبکہ دوسرے لوگ پند و نصیحت سے نفرت کرتے ہیں۔

وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ﴿۵۶﴾

۵۶۔ اور میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں۔

56۔ عبادت، معرفت کے بعد ممکن ہے۔ جیسا کہ روایات میں آیا ہے کہ انسان کو اللہ نے معرفت کے لیے پیدا کیا ہے اور وہ اس ذات کامل کی معرفت کے بعد اس کی بندگی کرتے ہیں۔ اس صورت میں عبد کے لیے کمال و ارتقا ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ کسی عبادت کا محتاج نہیں ہے۔ لہٰذا خلقت کی غرض اسی صاحب کمال کی بندگی کرنے سے پوری ہوتی ہے، نہ کہ کسی اور کی بندگی کرنے سے۔ اللہ نے بندگی کے لیے خلق کیا ہے، یعنی اللہ نے اس انسان کی خلقت کے اندر بندگی کا شعور ودیعت فرمایا ہے: فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ لِخَلۡقِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ۔ (روم: 30) وہ دین قیم جس میں کسی قسم کا انحراف نہیں ہے، عین فطرت ہے۔ اگر اللہ کی بندگی فطری نہ ہوتی تو اس بندگی سے انسان کو سکون حاصل نہ ہوتا۔ جیسا کہ مچھلی اگر پانی میں زندگی کے لیے پیدا نہ ہوتی تو اسے پانی میں سکون نہ ملتا۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ کی بندگی فطری ہے تو سب لوگوں کو اس پر چلنا چاہیے، کیونکہ فطرت سب کے لیے یکساں ہے۔ جواب یہ ہے کہ فطری ہونے کا مطلب جبری نہیں ہے۔ مثلاً جمالیات کی حس بھی سب کے نزدیک فطری ہے اور دوسروں پر احسان کرنے کا احساس بھی سب کے نزدیک فطری ہے، اس کے باوجود بہت سے لوگ نہ جمالیاتی ذوق رکھتے ہیں، نہ کمزوروں پر احسان کرتے ہیں، بلکہ اس کے برعکس ان کا خون چوستے ہیں۔

مَاۤ اُرِیۡدُ مِنۡہُمۡ مِّنۡ رِّزۡقٍ وَّ مَاۤ اُرِیۡدُ اَنۡ یُّطۡعِمُوۡنِ﴿۵۷﴾

۵۷۔ میں نہ ان سے کوئی روزی چاہتا ہوں اور نہ ہی میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں

اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الۡقُوَّۃِ الۡمَتِیۡنُ﴿۵۸﴾

۵۸۔ یقینا اللہ ہی بڑا رزق دینے والا، بڑی پائیدار طاقت والا ہے۔

فَاِنَّ لِلَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ذَنُوۡبًا مِّثۡلَ ذَنُوۡبِ اَصۡحٰبِہِمۡ فَلَا یَسۡتَعۡجِلُوۡنِ﴿۵۹﴾

۵۹۔ پس جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے حصے میں وہی سزائیں ہیں جو ان کے ہم مشربوں کے حصے میں تھیں، لہٰذا وہ مجھ سے عجلت نہ مچائیں۔

فَوَیۡلٌ لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ یَّوۡمِہِمُ الَّذِیۡ یُوۡعَدُوۡنَ﴿٪۶۰﴾

۶۰۔ پس کفار کے لیے تباہی ہے اس روز جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔