آیت 56
 

وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ﴿۵۶﴾

۵۶۔ اور میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں۔

تفسیر آیات

حدیث میں آیا ہے لِیَعۡبُدُوۡنِ سے مراد لیعرفون ہے۔ حدیث کے مطابق آیت کا مطلب یہ بنتا ہے: اور میں نے جن و انس کو پیدا نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری معرفت حاصل کریں۔

عبادت، معرفت کے بعد ممکن ہے۔ اللہ کے کمال و جمال کی معرفت کے بعد کمال کے سامنے جھکنا کمال ہے۔ لہٰذا عبد کا کمال و ارتقا یہ ہے کہ وہ کمال کے سامنے اپنا سرتسلیم خم کرے۔ لہٰذا خلقت انسانی کی غرض اسی صاحب کمال کی بندگی کرنے سے پوری ہوتی ہے، نہ کسی اور کی بندگی کرنے سے۔ اللہ نے انسان کو چونکہ بندگی کے لیے خلق کیا ہے اس لیے اس نے انسان کی خلقت میں بندگی کا شعور ودیعت فرمایا ہے:

فَاَقِمۡ وَجۡہَکَ لِلدِّیۡنِ حَنِیۡفًا ؕ فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ لِخَلۡقِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ۔۔۔۔ ( ۳۰روم: ۳۰)

پس (اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رخ دین (خدا) کی طرف مرکوز رکھیں (یعنی) اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے، یہی محکم دین ہے۔

دین قَیم جس میں کسی قسم کا انحراف نہیں ہے عین فطرت ہے۔ اگر اللہ کی بندگی فطری نہ ہوتی تو اس بندگی سے انسان کو سکون حاصل نہ ہوتا جیساکہ مچھلی اگر پانی میں زندگی بسر کرنے کے لیے پیدا نہ ہوتی تو اسے پانی میں سکون نہ ملتا۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ کی بندگی فطری ہے تو سب لوگوں کو اس پر چلنا چاہیے کیونکہ فطرت سب کے لیے یکساں ہیں؟

جواب یہ ہے کہ کسی بات کے فطری ہونے سے فطرت کے مطابق چلنے میں سب لوگوں کا یکساں ہونا ضروری نہیں ہے۔ چنانچہ دوسروں پر احسان کرنے کا احساس سب کے نزدیک فطری ہے۔ اس کے باوجود بہت سے لوگ کمزور لوگوں پر احسان کرنے کی جگہ ان کا خون چوستے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ انسان کا کمال، کمال کی بندگی میں ہے۔

۲۔ وہ انسان نہیں، جو کمال کے سامنے اکڑ جاتا ہے۔


آیت 56