آیت 47
 

وَ السَّمَآءَ بَنَیۡنٰہَا بِاَیۡىدٍ وَّ اِنَّا لَمُوۡسِعُوۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔ اور آسمان کو ہم نے قوت سے بنایا اور ہم ہی وسعت دینے والے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ بِاَیۡىدٍ: اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے آسمان کو اید سے بنایا۔ اید طاقت اور قوت کو کہتے ہیں۔ جیسے فرمایا:

وَ اذۡکُرۡ عَبۡدَنَا دَاوٗدَ ذَا الۡاَیۡدِ۔۔۔۔ ( ۳۸ صٓ: ۱۷)

اور (ان سے) ہمارے بندے داؤد کا قصہ بیان کیجیے جو طاقت کے مالک تھے۔

اسی سے ایدٍ تائید، قوت اور مدد دینے کے معنوں میں ہے۔

پس آیت کے معنی یہ ہوئے: اور آسمان کو ہم نے قوت سے بنایا۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے (اپنی) لایزال اور لامتناہی قوت و طاقت سے آسمان بنایا جیسا کہ اکثر مفسرین نے سمجھا ہے ۔ اس تفسیر کے مطابق ایدٍ کے ساتھ لفظ ’’اپنی‘‘ کا اضافہ کرنا پڑے گا۔ کہہ سکتے ہیں سیاق آیت سے ’’اپنی‘‘ سمجھا جاتا ہے چونکہ کسی غیر کی طاقت سے تو نہیں بنایا۔

اس جگہ ایک اور تفسیر ہے جسے بعض جدید مفسرین نے اختیار کیا ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ یہ فرمانا چاہتا ہے: ہم نے آسمان طاقت (انرجی) سے بنایا ہے یعنی آسمان بنانے کا ابتدائی میٹریل انرجی تھا۔ چنانچہ انرجی کے سمٹنے سے مادہ وجود میں آتا ہے اور مادہ کے بکھرنے سے انرجی بن جاتی ہے۔ اس طرح یہ دونوں آپس میں رشتہ دار ہیں۔ اسی تفسیر میں اِنَّا لَمُوۡسِعُوۡنَ کی یہ تفسیر کی ہے: ہم اس طاقت میں وسعت دینے والے ہیں۔ والعلم عند اللہ وان الزمان سوف یفسر مثل ھذہ الآیۃ۔ اصولاً ہمیں قرآن کی تفسیر سائنسی مفروضوں کے مطابق نہیں کرنی چاہیے۔ سائنسی مفروضے بدلتے رہتے ہیں اور قرآن ثابت حقائق بیان کرتا ہے۔

۲۔ وَّ اِنَّا لَمُوۡسِعُوۡنَ: اور ہم وسعت دینے والے ہیں یعنی آسمان کو وسعت دینے والے ہیں۔ کائنات کو پیدا کر کے اللہ نے آرام نہیں کیا جیسا کہ بائبل کہتی ہے بلکہ کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ ( ۵۵ رحمن: ۲۹) کے مطابق اس سرچشمہ فیض سے فیض ہمیشہ جاری رہتا ہے: لا انقطاع فی الفیض۔ اللہ تعالیٰ اس کائنات کو بنا کر فارغ نہیں ہوا بلکہ یہ کائنات بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔

کہتے ہیں: ستارے اپنے مرکز سے ۶۶ہزار کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے دور ہو رہے ہیں۔


آیت 47