الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ غَمۡرَۃٍ سَاہُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾

۱۱۔ جو جہالت کی وجہ سے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

11۔ جہالت کے مراحل ہوتے ہیں: پہلا مرحلہ سہو دوسرا غفلت ہے پھر غمرۃ ہے۔ اس طرح غمرۃ جہالت کا آخری مرحلہ ہے۔

یَسۡـَٔلُوۡنَ اَیَّانَ یَوۡمُ الدِّیۡنِ ﴿ؕ۱۲﴾

۱۲۔ وہ پوچھتے ہیں: جزا کا دن کب ہو گا؟

یَوۡمَ ہُمۡ عَلَی النَّارِ یُفۡتَنُوۡنَ﴿۱۳﴾

۱۳۔ جس دن یہ لوگ آگ پر تپائے جائیں گے۔

ذُوۡقُوۡا فِتۡنَتَکُمۡ ؕ ہٰذَا الَّذِیۡ کُنۡتُمۡ بِہٖ تَسۡتَعۡجِلُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ اپنے فتنے (کا مزہ) چکھو، یہ وہی ہے جس کی تمہیں عجلت تھی۔

اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوۡنٍ ﴿ۙ۱۵﴾

۱۵۔ (اس روز) اہل تقویٰ یقینا جنتوں اور چشموں میں ہوں گے۔

اٰخِذِیۡنَ مَاۤ اٰتٰہُمۡ رَبُّہُمۡ ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا قَبۡلَ ذٰلِکَ مُحۡسِنِیۡنَ ﴿ؕ۱۶﴾

۱۶۔ ان کے رب نے جو کچھ انہیں دیا ہے اسے وصول کر رہے ہوں گے، وہ یقینا اس (دن) سے پہلے نیکی کرنے والے تھے۔

کَانُوۡا قَلِیۡلًا مِّنَ الَّیۡلِ مَا یَہۡجَعُوۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ وہ رات کو کم سویا کرتے تھے،

17۔ وہ رات کا کچھ حصہ عبادت میں گزارتے ہیں۔ آیت کا ترجمہ تو یہ ہے:وہ رات کو کم سوتے ہیں۔ یعنی دوسروں کی بہ نسبت کم سوتے ہیں۔ اس کی دلیل یہ آیت ہے: قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿﴾ نِّصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ قَلِیۡلًا ﴿﴾ اَوۡ زِدۡ عَلَیۡہِ ۔ (مزمل:2۔4) یعنی آدھی رات سے کم یا آدھی رات سے زیادہ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادت کے وقت کا سونے کے وقت سے زیادہ ہونا ضروری نہیں ہے اور سحر کے وقت اللہ سے معافی مانگتے ہیں کہ بندگی کا حق ادا نہ ہوا۔ حقیقی بندگی یہی ہے کہ انسان عبادت کرنے کے بعد اسے ناچیز سمجھے اور اللہ کی بارگاہ میں اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرے اور بندگی کا حق ادا نہ ہونے پر معافی مانگے۔ اللہ کے سچے بندے دن رات عبادت کرنے کے بعد محراب میں مارگزیدہ انسان کی طرح کراہتے اور فریاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں: آہِ مِنْ قِلَّۃِ الزَّادِ وَ طُولِ الطَّرِیقِ ۔ (نہج البلاغۃ نصیحت 77 ص 480) افسوس! راستہ کتنا لمبا ہے اور زاد راہ کتنا قلیل۔

وَ بِالۡاَسۡحَارِ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ﴿۱۸﴾

۱۸۔ اور سحر کے اوقات میں استغفار کرتے تھے

وَ فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَ الۡمَحۡرُوۡمِ﴿۱۹﴾

۱۹۔ اور ان کے اموال میں سائل اور محروم کے لیے حق ہوتا تھا۔

19۔ عبادت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سائل و محروم بن جائیں، بلکہ عبادت کے ساتھ انسان کو سائل نواز اور محروم نواز بھی ہونا چاہیے۔ یہ حق خمس و زکوٰۃ کے علاوہ ہے جس کا اہل تقویٰ التزام کرتے ہیں۔ یہ آیات مکی ہیں۔ مکہ میں زکوٰۃ ابھی واجب نہیں ہوئی تھی۔

وَ فِی الۡاَرۡضِ اٰیٰتٌ لِّلۡمُوۡقِنِیۡنَ ﴿ۙ۲۰﴾

۲۰۔ اور زمین میں اہل یقین کے لیے نشانیاں ہیں۔