آیات 10 - 12
 

قُتِلَ الۡخَرّٰصُوۡنَ ﴿ۙ۱۰﴾

۱۰۔بے بنیاد باتیں کرنے والے مارے جائیں

الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ غَمۡرَۃٍ سَاہُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾

۱۱۔ جو جہالت کی وجہ سے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

یَسۡـَٔلُوۡنَ اَیَّانَ یَوۡمُ الدِّیۡنِ ﴿ؕ۱۲﴾

۱۲۔ وہ پوچھتے ہیں: جزا کا دن کب ہو گا؟

تشریح کلمات

الخراص:

( خ ر ص ) الکَذاب۔ ظن و تخمین پر یقین رکھنے والے۔

غَمۡرَۃٍ:

( غ م ر ) غمرۃ اس کثیر پانی کو کہتے ہیں جس کی اتھاہ نظر نہ آئے۔ اسی سے یہ جہالت کے لیے ضرب المثل ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ قُتِلَ الۡخَرّٰصُوۡنَ: قیامت کے بارے میں ظن و تخمین کو دلیل بنا کر جھوٹ قبول کرنے والے مارے جائیں۔ اس جگہ قُتِلَ لُعِن کے معنوں میں بتایا جاتا ہے یعنی رحمت و حیات سے محروم ہوں یہ لوگ جو چند ایک مفروضوں کی بنیاد پر قیامت کو رد کرتے ہیں کہ ہم جب خاک ہو چکے ہوں گے تو ہم پھر سے کیسے زندہ ہو سکتے ہیں۔

۲۔ الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ غَمۡرَۃٍ سَاہُوۡنَ: جو جہالت کی وجہ سے خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ مجمع البیان میں آیا ہے کہ جہالت کا پہلا مرحلہ سہو، پھر غفلت، پھر غمرۃ ہے۔ اس طرح غَمۡرَۃٍ جہالت کا آخری مرحلہ ہے لیکن آیت کی تعبیر اس بات کی تائید نہیں کرتی۔ آیت کے مطابق غَمۡرَۃٍ کا مرحلہ پہلے اور سہو کا مرحلہ بعد میں ہے کہ وہ تاریکی اور جاہلیت کی وجہ سے سہو اور غفلت کی حالت میں ہیں۔

۳۔ یَسۡـَٔلُوۡنَ اَیَّانَ یَوۡمُ الدِّیۡنِ: بطور استہزاء اور مذاق کہتے ہیں: قیامت کا دن کب ہو گا؟ انہیں جواب بھی اسی لہجے میں دیا گیا:


آیات 10 - 12