آیات 17 - 19
 

کَانُوۡا قَلِیۡلًا مِّنَ الَّیۡلِ مَا یَہۡجَعُوۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ وہ رات کو کم سویا کرتے تھے،

وَ بِالۡاَسۡحَارِ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ﴿۱۸﴾

۱۸۔ اور سحر کے اوقات میں استغفار کرتے تھے

وَ فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَ الۡمَحۡرُوۡمِ﴿۱۹﴾

۱۹۔ اور ان کے اموال میں سائل اور محروم کے لیے حق ہوتا تھا۔

تفسیر آیات

۱۔ کَانُوۡا قَلِیۡلًا مِّنَ الَّیۡلِ: ان متقین کے اوصاف کا بیان ہے جو جنت اور چشموں میں ہوں گے۔ پہلی صفت یہ تھی کہ وہ رات کو کم سوتے تھے۔ وہ دوسروں کی بہ نسبت کم سوتے تھے، نہ یہ کہ رات کا بیشتر حصہ عبادت میں گزارتے اور کم حصہ سوتے ہیں۔

اس کی دلیل یہ آیت ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم ملتا ہے۔ بیشتر حصہ عبادت میں گزارنے اور کم حصہ سونے کا حکم نہیں ملتا بلکہ یہ فرمایا:

قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿﴾ نِّصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ قَلِیۡلًا ﴿﴾ اَوۡ زِدۡ عَلَیۡہِ۔۔۔۔۔۔۔ (۷۳ مزمل:۲ تا ۴)

رات کو اٹھا کیجیے مگر کم، آدھی رات یا اس سے کچھ کم کر لیجیے، یا اس پر کچھ بڑھا دیجیے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادت کے وقت کا سونے کے وقت سے زیادہ ہونا ضروری نہیں ہے۔

دوسری صفت تھی وَ بِالۡاَسۡحَارِ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ: اور سحر کے وقت اللہ سے معافی مانگتے ہیں کہ بندگی کا حق ادا نہیں ہو رہا۔ حقیقی بندگی یہی ہے کہ عبادت کرنے کے بعد اسے ناچیز سمجھے، اللہ کی بارگاہ میں اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرے اور بندگی کا حق ادا نہ ہونے پر معافی مانگے۔

چنانچہ اللہ کے سچے بندے دن رات عبادت کرنے کے بعد رات کی تاریکی میں محراب میں مارگزیدہ انسان کی طرح کراہتے اور فریاد کرتے ہیں:

آہِ مِنْ قِلَّۃِ الزَّادِ وَ طُولِ الطَّرِیقِ۔۔۔ (فرمان امیر المومنین - نہج البلاغۃ نصیحت: ۷۷)

افسوس! زاد راہ تھوڑا، راستہ طویل۔

تیسری صفت تھی وَ فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَ الۡمَحۡرُوۡمِ: وہ شب زندہ داری کے ساتھ ساتھ سائل نواز اور محروم نواز بھی ہوتے ہیں کہ ان کے مال میں سوال کرنے والے اور محروم کا ایک حق اور حصہ ہوتا ہے۔ یہ حق خمس اور زکوٰۃ کے علاوہ ہے۔

مروی ہے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال ہوا: حق معلوم کیا ہے جو ہمارے ذمے ہے؟ فرمایا:

ھُوَ الشَّیْئُ یَعْمَلُہُ الرَّجُلُ فِی مَالِہِ یُعْطِیہِ فِی الْیَوْمِ اَوْ فِی الْجُمْعَۃِ اَوْ فِی الشَّھْرِ قَلَّ اَوْکَثُرَ غَیْرَ اَنَّہُ یَدُومُ عَلَیْہِ۔۔۔۔ (الکافی۳: ۴۹۹)

یہ وہ چیز ہے جو انسان اپنے مال کے سلسلے میں انجام دیتا ہے روزانہ یا ہر جمعہ یا ہر ماہ اپنے مال میں سے غریبوں کو دیتا ہے کم ہو یا زیادہ مگر یہ ہے ہمیشہ رہے۔

فضائل: سعید بن جبیر، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں:

کَانُوۡا قَلِیۡلًا مِّنَ الَّیۡلِ مَا یَہۡجَعُوۡنَ علی بن ابی طالب، حسن و حسین و فاطمہ علیہم السلام کی شان میں ہے کہ علی رات کا ایک تہائی سوتے، دو تہائی عبادت کرتے تھے۔ سحر کے وقت دعا و استغفار کے لیے بیٹھتے تھے اور ہر رات کو ستر رکعت نماز پڑھتے تھے جس میں قرآن ختم کرتے تھے۔۔۔۔ (تفسیر شواہد التنزیل ذیل آیت)

اہم نکات

۱۔ جنت آرزوؤں سے نہیں ملتی بلکہ تقویٰ، رات کی عبادت، استغفار اور غریب پروری سے ملتی ہے۔


آیات 17 - 19