قُلۡ اِنۡ کَانَ لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدٌ ٭ۖ فَاَنَا اَوَّلُ الۡعٰبِدِیۡنَ﴿۸۱﴾

۸۱۔ کہدیجئے: اگر رحمن کی کوئی اولاد ہوتی تو میں سب سے پہلے (اس کی) عبادت کرنے والا ہوتا۔

81۔ ایک ناممکن چیز کو ممکن فرض کر لینے کے بعد اس کی نفی کرنا مقصود ہے کہ اگر چہ اللہ کے لیے اولاد کا ہونا محال ہے تاہم بفرض محال اگر اس کی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے میں اس کی عبادت کرنے والا ہوتا۔ اب جو میری طرف سے انکار ہے، وہ حقیقت میں اللہ کی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ہے، نہ کہ کسی ضد کی وجہ سے۔

سُبۡحٰنَ رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ رَبِّ الۡعَرۡشِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ﴿۸۲﴾

۸۲۔ آسمانوں اور زمین کا رب، عرش کا رب، پاکیزہ ہے ان باتوں سے جو یہ لوگ بیان کر رہے ہیں۔

82۔ آسمانوں اور زمین کے رب کے بعد عرش کے رب کا ذکر بتلاتا ہے کہ ان دونوں کی ربوبیت میں فرق ہے۔ چنانچہ آسمانوں اور زمین کا مقام تخلیق میں رب ہے اور عرش کا مقام تدبیر میں رب ہے اور اللہ رب الخلق و التدبیر ہے۔ واضح رہے کہ عرش اللہ تعالیٰ کے مقام تدبیر کا نام ہے۔

فَذَرۡہُمۡ یَخُوۡضُوۡا وَ یَلۡعَبُوۡا حَتّٰی یُلٰقُوۡا یَوۡمَہُمُ الَّذِیۡ یُوۡعَدُوۡنَ﴿۸۳﴾

۸۳۔ پس انہیں بیہودہ باتوں میں مگن اور کھیل میں مشغول رہنے دیجئے یہاں تک کہ وہ اپنے اس دن کو پائیں جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔

وَ ہُوَ الَّذِیۡ فِی السَّمَآءِ اِلٰہٌ وَّ فِی الۡاَرۡضِ اِلٰہٌ ؕ وَ ہُوَ الۡحَکِیۡمُ الۡعَلِیۡمُ﴿۸۴﴾

۸۴۔ اور وہ وہی ہے جو آسمان میں بھی معبود ہے اور زمین میں بھی معبود ہے اور وہ بڑا حکمت والا، خوب جاننے والا ہے۔

84۔ آسمان کے فرشتوں اور زمین کے بتوں کو معبود بنانے والوں نیز زمین و آسمان کے لیے الگ الگ خدا قرار دینے والوں کے لیے جواب ہے کہ آسمان اور زمین میں ایک ہی معبود کی خدائی ہے۔

وَ تَبٰرَکَ الَّذِیۡ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا ۚ وَ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ السَّاعَۃِ ۚ وَ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ﴿۸۵﴾

۸۵۔ اور بابرکت ہے وہ جس کے لیے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب کی بادشاہی ہے اور اسی کے پاس قیامت کا علم ہے اور تم سب اسی کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔

وَ لَا یَمۡلِکُ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہِ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنۡ شَہِدَ بِالۡحَقِّ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ﴿۸۶﴾

۸۶۔ اور اللہ کے سوا جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ شفاعت کا کچھ اختیار نہیں رکھتے سوائے ان کے جو علم رکھتے ہوئے حق کی گواہی دیں۔

وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَہُمۡ لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ فَاَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ ﴿ۙ۸۷﴾

۸۷۔ اور اگر آپ ان سے پوچھیں: انہیں کس نے خلق کیا ہے؟تو یہ ضرور کہیں گے: اللہ نے، پھر کہاں الٹے جا رہے ہیں۔

وَ قِیۡلِہٖ یٰرَبِّ اِنَّ ہٰۤؤُلَآءِ قَوۡمٌ لَّا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿ۘ۸۸﴾

۸۸۔ اور (اللہ جانتا ہے) رسول کے اس قول کو: اے رب!یہ ایسے لوگ ہیں جو ایمان نہیں لاتے۔

فَاصۡفَحۡ عَنۡہُمۡ وَ قُلۡ سَلٰمٌ ؕ فَسَوۡفَ یَعۡلَمُوۡنَ﴿٪۸۹﴾

۸۹۔ پس ان سے درگزر کیجیے اور سلام کہدیجئے کہ عنقریب یہ جان لیں گے۔

89۔یعنی کفار کی طرف سے سخت مزاحمت اور گستاخی کے مقابلے میں حق کے داعی کا لہجہ سلام کا ہو۔ ساتھ ہی برے انجام کی طرف اتمام حجت کے طور پر ایک اشارہ بھی ہے: فَسَوۡفَ یَعۡلَمُوۡنَ ۔ انہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا۔

سلام کے مفہوم میں مفسرین میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک یہ امن و آشتی کا سلام ہے جو حکم قتال سے پہلے جائز و رائج تھا اور بعض کے نزدیک باہمی لا تعلقی کا سلام ہے۔