یُطَافُ عَلَیۡہِمۡ بِصِحَافٍ مِّنۡ ذَہَبٍ وَّ اَکۡوَابٍ ۚ وَ فِیۡہَا مَا تَشۡتَہِیۡہِ الۡاَنۡفُسُ وَ تَلَذُّ الۡاَعۡیُنُ ۚ وَ اَنۡتُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿ۚ۷۱﴾

۷۱۔ ان کے سامنے سونے کے تھال اور جام پھرائے جائیں گے اور اس میں ہر وہ چیز موجود ہو گی جس کی نفس خواہش کرے اور جس سے نگاہیں لذت حاصل کریں اور تم اس میں ہمیشہ رہوگے۔

71۔ جس طرح ایک جنین کے لیے عالم دنیا اور اس کی چیزیں قابل فہم نہیں ہیں اسی طرح دنیا والوں کے لیے عالم آخرت اور اس کی چیزیں قابل فہم نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ دنیا کی چیزوں کا ذکر کر کے فرماتا ہے کہ جنت میں باغات، نہریں، حوریں اور میوے ہوں گے۔ کیونکہ عالم دنیا کا انسان صرف انہی چیزوں کو سمجھ سکتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے اللہ اپنی قدرت کو ہاتھ سے تعبیر کرتا ہے کیونکہ انسان کے لیے مانوس تعبیر یہی ہے۔ اس آیت میں جنت کی نعمتوں کی جامع تعریف موجود ہے۔

تَشۡتَہِیۡہِ الۡاَنۡفُسُ : جس کی نفس خواہش کرے۔ جو بھی انسانی نفس کے دائرے میں آئے، وہ موجود ہو گا۔ خواہ اس کا تعلق لذتوں سے ہو یا آوازوں یا خوشبوؤں یا دیگر محسوسات سے ہو یا ان کی کیفیت سے ہو۔ اگر یہ خواہش ہو کہ جنت کی لذتوں میں تکرار نہ ہو، ہر مرتبہ نئی لذت ہو تو بھی میسر ہو گی۔

وَ تَلَذُّ الۡاَعۡیُنُ : نگاہیں لذت حاصل کریں۔ اس میں بصری نعمتوں کا ذکر آیا۔ اس میں سرفہرست جمالیات ہیں۔ خوبصورت چہرے، حسین مناظر، زیب و زینت کی چیزیں۔ ان دو لفظوں میں قابل تصور تمام نعمتوں کی ایک جامع تعریف آ گئی، تاہم عالم جنت میں انسانی خواہشات اور جمالیات ہمارے لیے قابل فہم نہیں ہیں۔ اشتہا اور لذت کی تعبیر انسان کو کسی حد تک مطلب کے نزدیک کر دیتی ہے۔

وَ تِلۡکَ الۡجَنَّۃُ الَّتِیۡۤ اُوۡرِثۡتُمُوۡہَا بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۷۲﴾

۷۲۔ اور یہ وہ جنت ہے جس کا تمہیں وارث بنا دیا گیا ہے ان اعمال کے صلے میں جو تم کرتے رہے ہو۔

لَکُمۡ فِیۡہَا فَاکِہَۃٌ کَثِیۡرَۃٌ مِّنۡہَا تَاۡکُلُوۡنَ﴿۷۳﴾

۷۳۔ اس میں تمہارے لیے بہت سے میوے ہیں جنہیں تم کھاؤ گے۔

اِنَّ الۡمُجۡرِمِیۡنَ فِیۡ عَذَابِ جَہَنَّمَ خٰلِدُوۡنَ ﴿ۚۖ۷۴﴾

۷۴۔ جو لوگ مجرم ہیں یقینا وہ ہمیشہ جہنم کے عذاب میں رہیں گے۔

لَا یُفَتَّرُ عَنۡہُمۡ وَ ہُمۡ فِیۡہِ مُبۡلِسُوۡنَ ﴿ۚ۷۵﴾

۷۵۔ ان سے (عذاب میں) تخفیف نہ ہو گی اور وہ اس میں مایوس پڑے رہیں گے۔

وَ مَا ظَلَمۡنٰہُمۡ وَ لٰکِنۡ کَانُوۡا ہُمُ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۷۶﴾

۷۶۔ اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی ظالم تھے۔

وَ نَادَوۡا یٰمٰلِکُ لِیَقۡضِ عَلَیۡنَا رَبُّکَ ؕ قَالَ اِنَّکُمۡ مّٰکِثُوۡنَ﴿۷۷﴾

۷۷۔ اور وہ پکاریں گے: اے مالک (پہریدار) تیرا رب ہمیں ختم ہی کر دے تو وہ کہے گا: بے شک تمہیں یہیں پڑے رہنا ہے۔

77۔ مالک سے مراد جہنم کا داروغہ ہے اور جواب داروغہ ہی کی طرف سے ہو گا۔

لَقَدۡ جِئۡنٰکُمۡ بِالۡحَقِّ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَکُمۡ لِلۡحَقِّ کٰرِہُوۡنَ﴿۷۸﴾

۷۸۔ بتحقیق ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے تھے لیکن تم میں سے اکثر حق سے کراہت کرنے والے ہیں۔

اَمۡ اَبۡرَمُوۡۤا اَمۡرًا فَاِنَّا مُبۡرِمُوۡنَ ﴿ۚ۷۹﴾

۷۹۔ کیا انہوں نے کسی بات کا پختہ عزم کر رکھا ہے؟ (اگر ایسا ہے) تو ہم بھی مضبوط ارادہ کرنے والے ہیں۔

79۔ کفار مکہ کی ان سازشوں کی طرف اشارہ ہے جو وہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف اپنی خفیہ نشستوں میں کرتے رہتے تھے۔

اَمۡ یَحۡسَبُوۡنَ اَنَّا لَا نَسۡمَعُ سِرَّہُمۡ وَ نَجۡوٰىہُمۡ ؕ بَلٰی وَ رُسُلُنَا لَدَیۡہِمۡ یَکۡتُبُوۡنَ﴿۸۰﴾

۸۰۔ کیا یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم ان کی راز کی باتیں اور سرگوشیاں نہیں سنتے؟ ہاں! اور ہمارے فرستادہ (فرشتے) ان کے پاس ہی لکھ رہے ہیں۔

80۔ اللہ کے فرستادہ فرشتے انسان کی ہر حرکت اور ہر بات کو ریکارڈ کر رہے ہیں تاکہ کل قیامت کے دن یہ خود اپنے اعمال کا مشاہدہ کرے۔ چنانچہ قیامت کے دن جب انسان ان اعمال کا مشاہدہ کے گا تو کہے گا : ہائے ندامت! یہ کیسا نامہ اعمال ہے۔ اس نے کسی چھوٹی بڑی بات کو نہیں چھوڑا۔ سب کو درج کر لیا ہے۔ (کہف: 49)