آیت 26
 

یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلۡنٰکَ خَلِیۡفَۃً فِی الۡاَرۡضِ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ بِالۡحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعِ الۡہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَضِلُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ لَہُمۡ عَذَابٌ شَدِیۡدٌۢ بِمَا نَسُوۡا یَوۡمَ الۡحِسَابِ ﴿٪۲۶﴾

۲۶۔ اے داؤد! ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے لہٰذا لوگوں میں حق کے ساتھ فیصلہ کریں اور خواہش کی پیروی نہ کریں، وہ آپ کو اللہ کی راہ سے ہٹا دے گی، جو اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں ان کے لیے یوم حساب فراموش کرنے پر یقینا سخت عذاب ہو گا۔

تفسیر آیات

۱۔ اے داؤد! ہم نے آپ کو زمین میں اپنا نمائندہ بنایا ہے۔ لفظ خلیفۃ کی تشریح کے لیے ملاحظہ فرمائیں سورۃ البقرۃ آیت ۳۰۔

۲ـ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ بِالۡحَقِّ: زمین پر خلیفہ بننے سے جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ لوگوں کے درمیان حق اور عدل و انصاف کا فیصلہ کرنا ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ خلیفۃ اللہ وہ ہوتے ہیں جو زمین میں اللہ کی شریعت کا نفاذ کریں اور شریعت کے نفاذ میں سرفہرست، لوگوں میں عدل و انصاف قائم کرنا ہے۔

۳۔ وَ لَا تَتَّبِعِ الۡہَوٰی: اور خواہش کی پیروی نہ کریں۔ بعض نے اس سے یہ سمجھا ہے کہ اس میں اشارہ ہے حضرت داؤد علیہ السلام کے فیصلے کی طرف کہ ان سے فیصلہ خواہش کے مطابق ہوا تھا۔ یہ درست نہیں ہے۔ اسی قسم کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بھی ہوا ہے:ـ

وَ اَنِ احۡکُمۡ بَیۡنَہُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ۔۔۔۔ (۵ مائدہ: ۴۹)

اور جو حکم اللہ نے نازل کیا ہے اس کے مطابق ان میں فیصلہ کریں اور آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔

حقیقت امر یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے معصوم ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ خواہشات سے بچنے کے مکلف نہیں ہیں، ان کی طرف امر و نہی کا حکم نہیں آتا اور وہ گناہ کرنے پر قدرت ہی نہیں رکھتے۔ بلکہ انبیاء علیہم السلام بھی باقی لوگوں کی طرح مکلف ہیں اور گناہ پر قدرت رکھنے کے باوجود گناہ نہیں کرتے۔


آیت 26