اَمۡ نَجۡعَلُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَالۡمُفۡسِدِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ۫ اَمۡ نَجۡعَلُ الۡمُتَّقِیۡنَ کَالۡفُجَّارِ﴿۲۸﴾

۲۸۔ کیا ہم ایمان لانے اور اعمال صالح بجا لانے والوں کو زمین میں فساد پھیلانے والوں کی طرح قرار دیں یا اہل تقویٰ کو بدکاروں کی طرح قرار دیں؟

28۔ اگر ان قدروں کو تسلیم نہ کیا جائے اور نیکی بجا لانے والا برائی کا ارتکاب کرنے والے کے برابر ہو جائے اور اصلاح کا داعی مفسدوں کے مساوی ہو جائے تو کائنات کا پورا نظام عبث ہو کر رہ جاتا ہے اور انسان ایک کھلونا بن جاتا ہے۔ یہ تصور بذات خود انسانیت کی توہین ہے۔

آیت میں اس بات کی صراحت موجود ہے: یہ کام اللہ سے صادر نہ ہو گا کہ صالح اور فسادی، متقی اور بدکار ایک جیسے ہوں۔ کیونکہ ہر عاقل سمجھ لیتا ہے کہ ایسا کرنا اپنی جگہ ایک قبیح عمل ہے۔ یعنی شریعت سے ہٹ کر اپنی جگہ یہ قبیح ہے۔ جو شریعت کو نہیں مانتا وہ بھی اسے قبیح سمجھتا ہے۔ اسے قبح عقلی کہتے ہیں۔ آیت کی صراحت یہ ہے کہ اللہ اس قسم کے قبیح عمل کا ارتکاب نہیں کرتا۔ ایسا کرنا عدل کے خلاف ہے اور اللہ عادل ہے۔